سید نبیل اختر:
پی آئی اے ملازمین نے اربوں روپے کے ٹکٹس ’’مفت‘‘ حاصل کیے۔ 2022ء سے پہلے ہر ملازم کو سالانہ 5 ڈومیسٹک اور اپنے ہی انٹرنیشنل ٹکٹس دیئے جاتے تھے۔ ارشد ملک کے سربراہ بننے کے بعد مفت ٹکٹوں کو تین کیٹگری میں تبدیل کر کے ان کی تعداد 40 تک بڑھا دی گئی۔ پی آئی اے کا مزدور طبقہ عمرہ کیلئے سہولت سے استفادہ کرتا رہا۔ افسران محض 15 اور 20 ہزار میں امریکہ، لندن، اوسلو، چین اور کینیڈا سیر و تفریح کی غرض سے جاتے رہے۔ ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے خاندان کیلئے بھی فری ٹکٹ کی سہولت دی جاتی ہے۔ نشستوں کی دستیابی کی شرط کبھی ’’مفت ٹکٹ‘‘ کے حصول میں آڑے نہیں آئی۔
پی آئی اے کے ذرائع نے بتایا کہ مفت ٹکٹ سے مراد ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل کے ٹکٹس میں ایئرلائن کرائے کی کوئی ادائیگی نہ کرنے سے متعلق ہے۔ تاہم ٹکٹ پر لاگو گورنمنٹ ٹیکسز کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ جو انتہائی معمولی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی پی آئی اے ملازم مفت ٹکٹ پر کینیڈا کے سوا تین لاکھ روپے کے ٹکٹ پر سفر کرنا چاہے تو اسے محض 45 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے اور جدہ کا ٹکٹ سوا لاکھ روپے کے بجائے 25 ہزار کا ملے گا۔ یہ سہولت برسہا برس سے پی آئی اے ملازمین استعمال کر رہے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پی آئی اے ملازمین اربوں روپے کے مفت ٹکٹ انجوائے کر چکے ہیں۔
پی آئی اے بکنگ آفس میں 30 برس تک خدمات انجام دینے والے ایک افسر کا کہنا ہے کہ اب پی آئی اے ملازمین کے مفت ٹکٹس ماضی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔ پہلے ہر سال 5 ٹکٹس کا ایک سیٹ ڈومیسٹک اور دوسرا سیٹ انٹرنیشنل ٹکٹ کا فراہم کیا جاتا تھا۔ 2022ء میں ارشد ملک کے پی آئی اے سربراہ بننے کے بعد 10 ٹکٹس کو 40 تک وسعت دے دی گئی۔ تاہم اس میں اب تین درجہ بندیاں ہیں۔ ایک سیٹ کی دستیابی پر مفت ٹکٹ SABLO، دوسرا این ایس ون (جس میں پی آئی اے ٹکٹ کرائے کے دس فیصد ادا کرنا ہوں گے) اور تیسرا آئی ڈی 50 (وہ ٹکٹ جس میں ٹکٹ کے کرائے کے 50 فیصد رقم ادا کر کے ٹکٹ بنوایا جائے)۔ 2022ء سے قبل صرف SABLO اور این ایس ون رائج تھے۔ جس میں این ایس ون کو ترجیح دی جاتی تھی۔ پی آئی اے ملازمین کو ملنے والے سالانہ ٹکٹس نہ صرف انہیں بلکہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی جاری کیے جاتے تھے۔ پہلے 24 برس کی عمر کے حامل بچے بھی اپنے والد یا والدہ کے فری ٹکٹ پر دنیا بھر کی سیر کرتے تھے۔ نئے احکامات میں 24 برس کی عمر کو بڑھا کر 27 کر دیا گیا اور غیر شادی شدہ لڑکی (بیٹی) کے ٹکٹس اس کے شادی ہو جانے پر ہی ملنا بند ہو سکتے ہیں۔
پی آئی اے کے اعلیٰ افسر اور ایک سابق ڈائریکٹر کے بقول پی آئی اے کے نچلے درجے کے ملازمین مفت ٹکٹ سے عمرہ کر آتے اور افسران سالانہ چھٹیاں امریکہ و یورپ میں مع خاندان گزار آتے۔ افسران کی تنخواہیں بھی مناسب تھیں اور ٹکٹ کا خرچہ نہ ہونے کے برابر۔ مفت ٹکٹ چونکہ جہاز میں نشستوں کی گنجائش ہونے سے مشروط ہیں۔
اس ضمن میں پی آئی اے کے ریونیو مینجمنٹ کے افسر نے انکشاف کیا کہ جب پی آئی اے کے جہاز مسافروں سے بھرے ہوئے تھے، تب ایجنٹوں کے ذریعے اوور بکنگ کرائی جاتی۔ تاکہ پروازوں میں تمام ٹکٹس بِکے ہوئے نظر آئیں۔ فلائٹ روانگی سے مخصوص وقت سے قبل وہ تمام سیٹیں خالی ہو جاتی تھیں جو ایجنٹوں کے ذریعے بھری گئی تھیں۔ پی آئی اے حکام کو معلوم ہوتا تھا کہ پی آئی اے کے کتنے ملازمین مفت ٹکٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے والے ہیں۔
افسر نے بتایا کہ پی آئی اے ملازمین کے مفت ٹکٹ ہمیشہ ریزرو کیے جاتے تھے۔ جبکہ وہ ٹکٹ مسافروں کو فروخت بھی ہو سکتے تھے۔ پی آئی اے کے یہ مفت ٹکٹس ایئر لائن میں بھرتی ہونے والے تمام ملازمین و افسران کیلئے سالانہ جاری ہوتے ہیں۔ تاہم بیرون ملک کا فری ٹکٹ اس ملازم کو جاری کیا جاتا ہے۔ جس کی پی آئی اے میں خدمات کے 5 برس مکمل ہو گئے ہوں۔ بھرتی کے سال سے ہی ڈومیسٹک ٹکٹ جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کو بھی مفت ٹکٹ کی سہولت دی جاتی ہے۔ تاہم نئی انتظامیہ نے اس میں کچھ کمی ضرور کی ہے۔ اب ریٹائرڈ ملازمین کو درجہ بندیوں کے مطابق سالانہ 8 فری ٹکٹس اور این ایس ون (یعنی ٹکٹ میں 10 فیصد ادائیگی) کے 4 ٹکٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ اس طرح ریٹائرڈ ملازم کی بیوہ کیلئے فری ٹکٹ 4 اور این ایس ون کے دو ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین کو آئی ڈی 50 کی سہولت نہیں دی جاتی۔ 20 سال سے زائد خدمات انجام دینے والے پی آئی اے ریٹائر ملازمین کو یہ سہولت زندگی بھر کیلئے دی جاتی ہے۔
بیرون ملک پی آئی اے کی خدمات انجام دینے والے ملازمین کو دس سال سے کم سروس پر 5 فری اور 4 این ایس ون ٹکٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ 10 برس خدمات انجام دینے والے ملازمین کو دس دس ٹکٹ کی سہولت حاصل ہے۔ اسی طرح کیڈٹ پائلٹس، ایپرینٹس مکینک اور سی اے/ اے سی سی اے انٹرنس کیلئے صرف ڈومیسٹک ایک ایک ٹکٹ دیئے جا سکتے ہیں۔ پی آئی اے ملازمین کو ایمرجنسی ٹکٹ کیلئے حلف نامہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔ ملازم نے ٹکٹ کیلئے اپلائی نہ کیا ہو تو اسے ایئرپورٹ سے حلف نامہ کے ذریعے ٹکٹ جاری کردیا جاتا ہے۔
ٹکٹ آفس سے جاری حلف نامے میں لکھا ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹکٹ میرے کریڈٹ پر ہے۔ تاہم میرا بیان غلط پایا جاتا ہے تو مذکورہ ٹکٹوں کے پورے کرائے کے برابر رقم ادا کروں گا۔ پی آئی اے ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ ملازمین کو مفت ٹکٹ پر بھی گورنمنٹ ٹیکس ضرور وصول کرتی ہے۔ یہ ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع کرایا جاتا تھا۔ بعد میں پی آئی اے انتظامیہ نے یہ ٹیکس سول ایوی ایشن اتھارٹی کو جمع کرانا چھوڑ دیا۔ پی آئی اے گورنمنٹ ٹیکس کو ٹکٹس پر وصول کرتی ہے۔ چاہے وہ فری کے ٹکٹ ہوں یا پورے کرائے وصولی کے۔ لیکن یہ ٹیکس کبھی خزانے میں جمع نہیں ہوا اور اب یہ رقم اب سوا کھرب سے تجاوز کر چکی ہے۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) سول ایوی ایش اتھارٹی کی سوا کھرب روپے سے زائد کی نادہندہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہونے والی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹس میں اسے سی اے اے انتظامیہ کی نا اہلی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا کہ سی اے اے ، پی آئی اے سے وصولی میں سنجیدہ نہیں۔ عدم وصولی پر نیوی گیشن کی خدمات واپس نہ لینے، معاہدوں کی خلاف ورزی کے باوجود دفاتر اور اراضی خالی نہ کرائی جاسکیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ریونیو مینول کے مطابق ایئر ٹرانسپورٹ ڈائریکٹوریٹ ہر دس روز بعد ہوائی اڈوں پر دی جانے والی خدمات کے عوض وصولی کا ذمہ دار ہے۔
عدم ادائیگی پر متعلقہ فضائی کمپنی پر واجبات میں 5 فیصد سرچارج وصول کرنے کا پابند ہے۔ یہ وصولی ایک ماہ سے تجاوز ہونے پر چھ ماہ کے سرچارج کے ساتھ دو فیصد اضافی وصولی بھی کرے گا اور یہ وصولی سالانہ بنیاد پر کی جائے گی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کھاتوں کی اسکروٹنی کے دوران پتا چلا کہ پی آئی اے سے ایک کھرب اکیس ارب 25 کروڑ 3 ہزار روپے وصول نہیں کیے گئے ہیں۔ جس میں ہیڈ کوارٹر سول ایوی ایشن فنانس ڈائریکٹوریٹ کے واجبات کی رقم ایک کھرب اکیس ارب 25 کروڑ 3 ہزار روپے ہے۔ آڈٹ کے مشاہدے میں آیا کہ سی اے اے انتظامیہ نے نہ صرف کرائے، لائسنس فیس اور الائیڈ چارجز وصول نہیں کیے۔ بلکہ عدم ادائیگی کی صورت میں سرچارج کی وصولی، لائسنس و معاہدوں کی تنسیخ سے بھی گریز کیا۔ جس کے باعث سول ایوی ایشن اتھارٹی کی سوا کھرب کے لگ بھگ رقم پھنس گئی۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ برسوں سے پی آئی اے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 8 اقسام کی خدمات پر ادائیگیاں روک رکھی ہیں۔ جو بڑھتے بڑھتے ایک کھرب 24 ارب تک جاپہنچی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ مسافروں سے منسلک 8 اقسام کی خدمات پر پی آئی اے سمیت تمام فضائی کمپنیاں سی اے اے کو ادائیگیاں کرتی ہیں۔ ان میں امبارکیشن ڈومیسٹک و انٹرنیشنل چارجز، انفرااسٹرکچر ڈولپمنٹ انٹرنیشنل چارجز، سیکورٹی چارجز ڈومیسٹک و انٹرنیشنل، ایف ٹی ٹی انٹرنیشنل چارجز، گورنمنٹ ایئرپورٹ ٹیکس ڈومیسٹک و انٹرنیشنل شامل ہیں۔
اسی طرح لینڈنگ و ہاؤسنگ چارجز کی مد میں بھی 10 اقسام کی خدمات پر وصولیاں کی جاتی ہیں۔ ان میں ایئرکرافٹ پاور سپلائی ڈومیسٹک و انٹرنیشنل، کارگو ہینڈلنگ فیسی لٹیشن انٹرنیشنل چارجز، لینڈنگ و ہاؤسنگ ڈومیسٹک چارجز، ایویو برج ڈومیسٹک، لینڈنگ و ہاؤسنگ انٹرنیشنل، نیوی گیشن فار لینڈنگ انٹرنیشنل، فائر اینڈ ریسکیو فیسی لیٹی ڈومیسٹک و انٹرنیشنل، گراؤنڈ ہینڈلنگ سی اے اے چارجز انٹرنیشنل اور روٹ نیوی گیشن چارجز شامل ہیں۔ یہ چارجز سول ایوی ایشن اتھارٹی کو پی آئی اے نے کبھی دیئے ہی نہیں۔ جس سے خزانے کو اربوں کا نقصان ہوچکا۔