نواز طاہر:
ملک میں زرعی ٹیکس کے نفاذ و قانون سازی کے اثرات اور مضمرات پر زمینداروں، اراکین اسمبلی اور کسان تنظیموں میں اختلاف رائے سامنے آرہا ہے۔ کاشت کار رہنمائوں نے اسے ناقابلِ عمل اور زراعت کے شعبے کیلئے مضر اور عالمی اداررے کے دبائو کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ لیکن حکومتی حلقے اس کا دفاع کرتے ہوئے درست قرار دیتے ہیں۔ تاہم وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کہ پنجاب میں عجلت میں کی گئی قانون سازی نے تحفظات اور ناقدین کو منفی پراپیگنڈے کا موقع فراہم کیا۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں حال ہی میں زرعی انکم ٹیکس کی وصولی کا قانون عددی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا ہے۔ لیکن حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی اس بل کی مخالفت کے باعث اسمبلی کے اجلاس سے واک آئوٹ کرگئی تھی اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ اب اسی طرز کے بل کی تمام اسمبلیوں سے منظوری اور ٹیکس وصولی کے لئے آئی ایم ایف کا دبائو بڑھ رہا ہے۔
بل کی رو سے کسانوں پر سپر ٹیکس لاگو ہوگا۔ زرعی زمین پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جائے گی۔ مال مویشی بھی زراعت کا حصہ شمار کیے گئے ہیں اور ان سے حاصل آمدنی پر بھی ٹیکس لگے گا۔ نادہندہ کو ٹیکس رقم کا صفر اعشاریہ ایک فیصد ہر اضافی دن کا جرمانہ ادا کرناہوگا۔ بارہ لاکھ سے کم زرعی آمدنی والے زرعی ٹیکس نا دہندہ کو دس ہزار، چار کروڑ سے کم زرعی آمدنی والے ٹیکس نا دہندہ کو پچیس ہزار، چار کروڑ سے زائد زرعی آمدنی والے نا دہندہ کو پچاس ہزار، بارہ لاکھ تک آمدنی والا دس ہزار روپے اور بارہ لاکھ سے چار کروڑ روپے تک آمدنی والا بیس ہزار روپے جرمانہ دے گا۔ اور زرعی زمین پر ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ ختم ہوجائے گی۔
اس ضمن میں کسان رہنما چودھری خالد باٹھ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’یہ ٹیکس کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ کس بات کا ٹیکس ہے کیا زراعت نفع بخش رہ گئی ہے؟ ابھی ہم نے ہفتے کے روز چنیوٹ میں قومی شاہراہ پر آٹھ گھنٹے گنے کے پرانے نرخ کے حصول کے لیے دھرنا دیا ہے اور شوگر ملوں کے مالکانہ کیخلاف احتجاج کیا، جو گنے کی پوری قیمت ادا نہیں کررہے۔ زراعت گزشتہ دو سال سے مکمل گھاٹے میں ہے۔
امسال حکومت نے گندم نہ خرید کر کسان کو بھی مار دیا ہے اور عوام کیلئے بھی کانٹے بو دیئے ہیں۔ اس سال گندم کی کاشت ستر فیصد کم ہوگی اور اگلے چند ماہ میں روٹی کی قیمت سو روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ٹیکس تو حکومت تب لے، جب یہ نفع بخش ہو یا حکومت بھی کچھ دے رہی ہو۔ اگر چار سو روپے کی لاگت پر فروخت پانچ سو روپے میں ہو اور ایک سو روپیہ نفع ہوتو حکومت اس سو روپے میں سے ٹیکس کی بات کرے۔ لیکن اگر دو سو روپے نقصان ہے تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ کیا حکومت یہ نقصان پورا کرنے کی کوئی پالیسی رکھتی ہے کہ کسان کو کس طرح زندہ رکھنا ہے؟‘‘
انہوں نے بتایا ’’تمام کسان تنظیموں کا اجلاس بلا کر لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا اور حکومت میں شامل چار بڑی جماعتوں کے ماسوا حکومت سے باہر کی تمام سیاسی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی جس میں ان سے تعاون کی اپیل کی جائے گی اور اس ٹیکس کے خلاف تحریک چلائی جائے گی۔ اس سے پہلے پریس کانفرنس میں لائحہ عمل کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔ اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں جاری ہیں جن میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔‘‘
کاشت کار رہنما عبادالرحمان کا کہنا تھا ’’حکومت آئی ایم ایف کے دبائو پر زرعی شعبے پر ٹیکس تو لگا رہی ہے اور قانون سازی بھی کررہی ہے۔ لیکن یہ ایک ناقابل عمل اور زراعت پر کاری ضرب ہوگی۔ زرعی شعبہ مزید سکڑ جائے گا۔ فوڈ امپورٹ بڑھ جائے گی اور دیہی آباد کاروں کا رخ شہروں کی جانب بڑھ جائے گا، جس سے مزید مسائل جنم لیں گے۔ ساتھ ہی زمینداروں کے ہاتھ مروڑے جائیں گے اور اس ٹیکس کی وصولی کا فول پروف نظام بنائے کے بجائے اسے سیاسی انتقام کے لئے استعمال بھی کیا جاسکے گا۔‘‘
عباد الرحمٰن کا مزید کہنا تھا ’’جب تئیس سال قبل پچاس ایکڑ اراضی پر زرعی انکم ٹیکس لگایا تو اس کی وصولی محکمہ مال کے حوالے کی گئی۔ لیکن طریقِ کار وضع نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق پچاس ایکڑ سے زائد رقبہ رکھنے والوں کی تعداد صرف پانچ ہزار تھی جس میں اب کمی واقع ہوئی ہوئی ہے۔ تب ساڑھے بارہ ایکڑ رقبہ رکھنے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی اور ستانوے فیصد رقبہ، ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم تھا جو اب مزید کم ہوگیا ہے۔ یہ ٹیکس تئیس سال قبل لگایا گیا تھا، لیکن اس کی وصولی کا تاحال نظام نہیں بنایا جاسکا اور من مانی وصولی کی جارہی ہے۔‘‘ کسان رہنما کا کہنا تھا ’’
آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرنے کے لئے حکومت نے عام آدمی کا جینا حرام کردیا ہے۔ ٹیکسیشن سے عوام کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ موجودہ حکومت یہ ٹیکس لگا رہی ہے لیکن مسائل اگلی حکومت کیلئے کھڑے ہوں گے۔ خواہ وہ کسی بھی جماعت کی حکومت ہو۔ سیاسی جماعتیں بھی دوغلی پالیسی پر چلتے ہوئے عوام کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو اس ٹیکس کی حامی ہے۔ لیکن پنجاب میں دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہوئے یہی پی ٹی آئی اس کی مخالفت کرتی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور پنجاب میں وہ صوبائی حکومت کی اتحادی ہے۔ لیکن اس ٹیکس کی مخالفت کر رہی ہے۔ جبکہ سندھ میں وہ جلد یا بدیر اس کا نفاذ عالمی ادارے کی شرائط پوری کرنے کے لئے لگائے گی۔‘‘
دوسری جانب زرعی ٹیکس کی وصولی کے لے حکومت کے ذہن میں کیا خاکہ ہے اور ہدف کیا ہے؟ اس بارے میں پنجاب انتظامیہ تاحال واضح اعداد و شمار نہیں رکھتی۔ یہ جاننے کیلئے صوبائی محکمہ مال اور محکمہ زراعت سمیت دیگر اتھارٹیز سے بھی بات کی گئی، لیکن وہ بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ البتہ مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی چودھری امجد علی جاوید کا کہنا تھا کہ ’’جب ہر شعبے پر ٹیکس نافذ ہے، تو پھر زرعی شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہونا چاہیئے۔ یہ بہت دیرینہ ایشو ہے۔ لیکن جس انداز سے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کی گئی ہے، اس نے تنقید کے راستے کھول دیئے ہیں۔ اگر اس پر تفصیل کے ساتھ ایک روز سے زائد بحث کی جاتی، طریق ِ کار پر بات ہوتی اور ٹیکس وصولی و تشخیصی عمل سہل بنا کر پیش کیا جاتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔
اب جبکہ جلد بازی کا تاثر ہے، اس لئے اس کی مزاحمت ہورہی ہے اور مزید ہوگی۔ البتہ یہ اہم بات ہے کہ پوری دنیا میں زراعت سبسڈائزڈ ہے۔ اس کی سبسڈیز بہتر بنانے کی اور کسان کو سہولت دینے کی ضرورت ہے، جس طرح بھارت سمیت دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان اور بھارت کا موازنہ کچھ معاملات میں اس لئے نہیں بنتا کہ وہاں آزادی کے فوری بعد ہی لینڈ ریفارمز کی گئی تھیں اور ایک یونٹ ہی بارہ ایکڑ کا بنا دیا گیا تھا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’’اس ٹیکس میں چوری کا عنصر بھی انڈسٹریلسٹ اور انویسٹرز جیسا ہی ہونے کا امکان ہے۔ لوگ خود راستے تلاش کرلیں گے۔ جہاں تک یہ تاثر ہے کہ ہر کسی کو ٹیکس دینا پڑے گا تو یہ خیال درست نہیں۔ اگر ایک یونٹ سے مجموعی آمدنی چھ لاکھ اور پیداواری اخراجات اور محنتانہ منہا کرکے ایک لاکھ روپے کی بچت ہوگی تو اس شرح سے ٹیکس لاگو ہوگا اور میرے خیال سے جس طرح یہان موروثی ملکیتی رقبے ہیں تو خاندان کے افراد کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے شائد پچیس ایکڑ تک کے یونٹ بھی ٹیکس سے باہر ہوجائیں۔ کیونکہ اس میں کاشت کار خاندان کے افراد کی اجرت بھی پیداواری مداخل میں شامل کی گئی ہے۔‘‘