اطراف کے حساس علاقوں کی سیکیورٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، فائل فوٹو
اطراف کے حساس علاقوں کی سیکیورٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، فائل فوٹو

شیریں جناح کالونی بس اڈہ جرائم کا گڑھ بن گیا

اقبال اعوان :
کراچی میں کلفٹن شیریں جناح کالونی کا بس اڈا جرائم کا گڑھ بن گیا۔ ٹرانسپورٹرز رہنما نے تخریب کاری کا خدشہ ظاہر کردیا۔ چار سال قبل اس اڈے کے مرکزی دروازے پر بم دھماکہ ہوا تھا جس کے بعد بھی بائونڈری والی اور داخلی خارجی راستوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ قبضہ گروپ دکانیں ، پتھارے اور پارکنگ جیسی جگہیں فروخت کر رہا ہے۔ میئر کراچی اور صوبائی وزارت ٹرانسپورٹ کو کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد نے متعدد خطوط تحریر کئے ہیں۔ اس کو ماڈل بس اسٹاپ بنانے کے کئی سال سے دعوے کئے جارہے ہیں۔ تاہم اب بھی سیکورٹی کا فقدان ہے۔ جبکہ قریب حساس ترین علاقہ آئل ایریا اور چائنا پورٹ کا ہے۔ بس اڈے کی موجودگی کے باوجود پیپلز بس سروس اور دیگر روٹ کی کوچیں اڈے کے باہر سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

واضح رہے کہ 1996ء میں اس وقت کے کمشنر کراچی ضیا الاسلام نے کراچی کے مختلف علاقوں میں 19 بس اڈے بنوائے تھے جو کے ڈی اے کی زمین پر بنے تھے۔ جہاں مختلف روٹس کی بسیں، کوچیں اور مزدا کھڑی رہتی تھیں۔ بس اڈے کی بائونڈری وال اور داخلی خارجی گیٹ ہوتے تھے۔ جہاں چوکیدار یا سیکورٹی گارڈ ہوتا تھا۔ علاقہ پولیس بھی گشت کرتی تھی اور بعض اوقات اہلکار اندر بس اڈے کی دکانوں ، ہوٹلوں پر چیکنگ کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان اڈوں پر قبضہ گروپ چھا گیا۔ سرکاری اور نجی طور پر قبضے جاری ہیں۔

کلفٹن کے علاقے شیریں جناح کالونی کے بس اڈے کی صورتحال بھی خراب ہے۔ دو ایکڑ پر محیظ بس اڈا کھنڈر بن چکا ہے۔ یہاں پر پہلے مزدا R-1، مزدا P-3، لکی کوچ اور بس 20 نمبر کھڑی ولتی تھی اب اکثر روٹ ختم ہوچکے ہیں۔ اب 20 نمبر کی 200 میں سے 50 بسیں شہر میں آتی جاتی ہیں جو ادھر پارک ہوتی ہیں اور آغاز کے حوالے سے یہ اڈا 20 نمبر بس کا کہلاتا ہے۔ کوچ سپر حسن زئی اور میٹرو 9C آج کل کم تعداد میں آتی ہیں۔ چار سال قبل جس اس اڈے کے مرکزی داخلی گیٹ پر موٹر سائیکل کھڑی کرکے دھماکہ کیا گیا تھا۔ تب کہا گیا تھا کہ یہ حساس ترین ایریا ہے۔

نشہ کرنے والے گیٹ یا پلر توڑ کر نکال کرلے گئے ہیں۔ جبکہ قریب آئل ایریا اور چائنا پورٹ کا علاقہ ہے۔ لہٰذا اس کو فوری طور پر مارڈن بس اڈا بنایا جائے گا۔ تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ بائونڈری والی جگہ جگہ سے گرا کر ہوٹل پتھارے ، مختلف گاڑیوں کی چیکنگ ، جن میں واٹر ٹینکر ، مرغیوں کی گاڑیاں اور دیگر پارک کی جاتی ہیں۔ مرکزی داخلی گیٹ اور پلیٹرز ختم کردیے گئے ہیں۔ ایک جانب منشیات فروش اور نشہ کرنے والوں کا قبضہ ہے۔ راتوں کو لوٹ مار کا سلسلہ ہوتا ہے۔

اندھیرا ہونے کے بعد بس اڈے پر اندر کوئی نہیں جاتا ہے کہ سیکورٹی نہیں ہے۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے جوائنٹ سیکریٹری جنرل خیال محمد خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ساری صورتحال میئر کراچی اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ کو بتاچکے ہیں۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا یہ بلدیاتی حلقہ ہے۔ کئی بار آکر کہہ گئے کہ اڈوں پر قبضے حتم کرائیں گے اور ماڈرن بس اڈا بنائیں گے۔ جبکہ ساتھ صوبائی وزیر ناصر شاہ سمیت دیگر سروے کرکے گئے ہیں۔ تاہم کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چند سال قبل ہونے والے بم دھماکے کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔

کے ایم سی کی زمین پر بنے بس اڈے کو کھنڈر بنادیا گیا ہے۔ منشیات فروشوں ، نشہ کرنے والوں ، جرائم پیشہ کی موجودگی سے تخریب کاری کا خطرہ ہے۔ حساس مقام پر بس اڈا ہونے پر اس کی سیکورٹی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس طرح بس اڈے والوں اور مسافرں کی جانوں کو خطرات ہیں۔ کئی بس ، مرزا ، کوچ کے ٹرانسپورٹرز نے بتایا کہ پیپلز بس سروس روٹ R-11 اور خان کوچ سمیت دیگر روٹ کی گاڑیاں سڑکوں پر باہر کھڑی کی جارہی ہیں کہ اندر قبضہ گروپ کی بڑھتی کارروائی کی وجہ سے اندر جگہ نہیں ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ بس اڈے کی تعمیر کرائی جائے اور سیکورٹی فراہم کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔