امت رپورٹ:
’’بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور ہمیں پھنسا کر بھاگ نکلے۔ جس طرح انہوں نے ہمارے ساتھ کیا، اللہ انہیں برباد کرے‘‘۔
یہ ان گرفتار شرپسندوں میں سے متعدد کے الفاظ ہیں، جو چھبیس نومبر کی رات اسلام آباد سے گرفتار ہوئے تھے اور اب پچھتاوے کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت کو کوس رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انہیں پیسے دے کر لایا گیا تھا۔ قافلے کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں میں اسلحہ، پتھر، غلیلیں اور آنسو گیس کے شیل تھے۔ یہ اعترافات ان گرفتار شدگان نے اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغامات میں کیے ہیں۔ اب تک گرفتار کیے گئے سینکڑوں شرپسندوں کے ویڈیو بیانات ریکارڈ کیے جانے کے ساتھ ان کی بائیو میٹرک (فنگر پرنٹس) بھی کرالی گئی ہے۔
تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ان شرپسندوں میں بڑی تعداد دیہاڑی داروں کی تھی، جنہیں پیسوں کے عوض لایا گیا۔ جبکہ ایک تعداد جرائم پیشہ افراد کی تھی، جنہیں پولیس اور رینجرز پر حملوں کی ڈیوٹی دی گئی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان نوجوان کارکنوں اور دیہاڑی دار شرپسندوں کو احتجاجی مارچ کا حصہ بنانے کے لئے بشریٰ کی ہدایت پر ان کی ذہن سازی کی گئی تھی۔
اس سلسلے میں انہیں خصوصی طور پر تیار ڈاکومنٹری دکھائی جاتی رہی۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ بشریٰ اور گنڈاپور اور جو ایم این اے اور ایم پی ایز انہیں لے کر آئے تھے، وہ سب بھاگ گئے اور انہیں چھوڑ گئے۔ گرفتار شرپسندوں میں سے ایک بڑی تعداد نے یہ بھی کہا کہ ’’ہمارے گرفتار ہونے کے بعد سے اب تک کسی رہنما نے پلٹ کر نہیں دیکھا ہے۔ ہمارے گھر والے پریشان ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا‘‘۔ بہت سے گرفتار شدگان بشریٰ اور گنڈا پور کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ گرفتار شدگان میں زیادہ تر کا تعلق سوات، اپر دیر، لوئر دیر، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ، ہنگو، پشاور اور ایبٹ آباد سے ہے جبکہ متعدد افغانی ہیں۔
جب آپریشن شروع ہوا تو اسلام آباد میں شرپسندوں کی تعداد محض دو سے ڈھائی ہزار رہ گئی تھی۔ باقی اس سے پہلے ہی نکل گئے تھے۔ پشاور میں پی ٹی آئی سے جڑے ایک مقامی عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کارکنوں کو پرجوش بنانے کے لئے احتجاجی مارچ سے پہلے کئی روز تک ان کی ذہن سازی کی جاتی رہی۔ اس سلسلے میں مختلف مقامات پر مجمع اکٹھا کرکے خصوصی طور پر تیار ایک ڈاکومنٹری دکھائی جاتی تھی۔ اس ڈاکومنٹری کے ذریعے ان نوجوانوں کو پیغام دیا جاتا تھا کہ چوبیس نومبر کی فائنل کال ’’حق و باطل‘‘ کا آخری معرکہ ہے۔ جس میں حصہ لینا ’’عین ثواب‘‘ ہے۔
ساتھ ہی نوجوانوں کو ہرے باغ دکھانے کے لئے ڈاکومنٹری میں کہا گیا کہ ’’تم لوگ بھی ’’محنت‘‘ اور ’’قربانیاں‘‘ دے کر مراد سعید اور شاہد خٹک بن سکتے ہو۔ مراد سعید سوات کے ایک چھوٹے سے گھر سے آج کہاں پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح شاہد خٹک دوبار رکن قومی اسمبلی بنا اور اس کے علاقے کے امیر ترین امیدواروں کو نظرانداز کرکے پارٹی نے اسے ٹکٹ دیا‘‘۔ عہدیدار کے بقول دراصل بشریٰ بی بی نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کو ہزاروں کی تعداد میں کارکنان لانے کا جو ٹارگٹ دیا تھا، وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اکثریت اس فساد کا حصہ بننے سے انکاری تھی۔ کیونکہ نو مئی کے گرفتار کارکنوں کی مثال ان کے سامنے تھی، جو آج تک جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ ان کے مستقبل تباہ ہوگئے اور گھر والوں کا سکون لٹ گیا۔ لیکن پارٹی اپنی اندرونی لڑائیوں اور رسہ کشی میں الجھی ہوئی ہے۔ پارٹی کے سارے نام ور وکلا کی توجہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے مقدمات لڑنے پر ہے اور گرفتار کارکنوں کے پاس عام وکیل کرنے کے پیسے بھی نہیں۔
اس صورتحال میں جب متعلقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے دیکھا کہ بشریٰ بی بی کا ہدف کے مطابق پانچ فیصد کارکنان بھی لے جانا مشکل ہے تو ڈاکومنٹری کے ذریعے ذہن سازی کا فیصلہ کیا گیا اور ساتھ ہی دیہاڑی داروں کا بندوبست کیا۔ ان میں تندور پر کام کرنے والے اور مزدوری کرنے والے سب شامل ہیں۔ انہیں چار چار، پانچ پانچ ہزار روپے کے عوض مارچ کا حصہ بنایا گیا۔ بعض کو پچاس، پچاس ہزار روپے بھی دیئے گئے۔ کسی کو نیا موبائل خرید کر دینے کا وعدہ کیا گیا۔
گرفتار ہونے والے ایک فرسٹ ایئر کے طالب علم نواب علی نے بتایا کہ اسے بھی پیسے دے کر لایا گیا۔ اس نے سوچا کہ دیہاڑی بھی لگ جائے گی اور سیر سپاٹا بھی ہوجائے گا۔ ایک عمر نامی شرپسند نے بتایا کہ وہ احتجاجی قافلے میں شامل ہوا تو اس نے اپنی آنکھوں سے کئی گاڑیوں میں بڑے بڑے پتھر دیکھے، جو پولیس پر برسانے کے لئے رکھے گئے تھے۔ گاڑیوں میں غلیلیں، پیٹرول بم اور ڈنڈے بھی تھے۔ متعدد نے بتایا کہ بڑی تعداد میں اسلحہ بھی لے جایا گیا تھا۔ ایک گرفتار سجاد نامی شرپسند اپنی بپتا سناتے ہوئے رو پڑا اور کہا ’’میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔ گھر میں اور کوئی مرد نہیں۔ اب میں کیا کروں۔ ان لوگوں نے مجھے یہاں تک پہنچادیا ہے‘‘۔
ایک پرویز خان نامی شرپسند نے روتے ہوئے کہا ’’بشریٰ اور گنڈا پور نے غریبوں کو قتل کروایا‘‘۔ عمران نامی شرپسند نے انکشاف کیا کہ اس کی ڈیوٹی تھی کہ تیس سے پینتیس افغانیوں کو کلاشنکوف دوں۔ ایک شرپسند نے کہا کہ پارٹی جادوگرنی کے کنٹرول میں چلی گئی ہے۔ جس طرح انہوں نے ہمارے ساتھ کیا، اللہ تعالیٰ انہیں غرق اور برباد کرے۔ ایک گرفتار ہونے والے نے بتایا کہ اسے پچاس ہزار روپے دیئے گئے تھے کہ اپنے ساتھ دوستوں کو بھی لائو۔ یہ اعترافات گرفتار شدگان نے پولیس کے سامنے کیے ہیں اور اپنی ویڈیوز بھی ریکارڈ کرائی ہیں۔ ایک ایاز نامی نوجوان نے بتایا ’’میں علی خان جدون کے ساتھ آیا تھا۔ وہ خود بھاگ گیا اور ہمیں پھنسا گیا‘‘۔
احتجاجی قافلے میں جرائم پیشہ افراد کو بھی شامل کیا گیا۔ سب سے المناک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ عمران اور بشریٰ سے لے کر گنڈاپور سمیت پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے کسی کی اولاد یا گھر والے اس احتجاج میں شامل نہیں تھے۔ ان لوگوں نے غریبوں کے بچوں کو ایندھن بنایا۔ پنکی پیرنی کی دبئی میں مقیم بہن مریم وٹو نے ایک ٹی وی پروگرام میں ڈھٹائی کے ساتھ اعتراف کیا کہ اس نے بشریٰ سے کہا تھا، وہ خود اور گھر کے دیگر افراد کو بھی احتجاج میں شرکت کے لئے لانا چاہتی ہے۔ لیکن بشریٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ میں تمہاری زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ اس سے زیادہ سنگدلی کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن دیوتا اور اب دیوی کے اندھے پیروکاروں کو یہ احساس گرفتار ہونے اور جیل میں جانے کے بعد ہوتا ہے۔
سلام ہے ان والدین پر جو دیوتا کی خوشنودی کے لئے اپنے جگر گوشوں کی بھینٹ دے رہے ہیں۔ بشریٰ عرف پنکی پیرنی کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا دبئی میں ہے۔ ایک بیٹی سابق شوہر خاور مانیکا کے پاس ہے۔ اپنے بیٹے، دامادوں اور نواسی نواسوں کو وہ وزیراعلیٰ ہائوس بلاکر دنیا کی ہر نعمت سے انہیں مستفید تو کرتی ہے۔ لیکن احتجاج پر روانہ ہونے سے پہلے انہیں واپس گھر بھیج دیتی ہے کہ کہیں گرم ہوا نہ لگ جائے۔ اور قوم کے غریب نوجوانوں کو کہتی ہے ’’میرے شوہر کو جیل سے نکالنے کے لئے تمہیں خود کو آگ اور خون کے دریا میں ڈالنا ہوگا‘‘۔
26 نومبر کی رات جب یہ بھٹکے ہوئے نوجوان آگ اور دھویں میں گھرے ہوئے تھے، تو ٹھیک اس وقت لوگوں کی نوجوان اولادوں کو سر سے کفن باندھنے کا درس دینے والے گنڈا پور کے اپنے بیوی بچے اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر کے محل نما بنگلے میں آرام فرمارہے تھے۔ دوسری جانب دیوتا کی محبت میں زومبیز بن جانے والے اوورسیز پاکستانی اپنا اور پاکستان کا وقار خاک میں ملارہے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ قاسم اور سلیمان اپنے ابو کے لئے برطانیہ میں ہونے والے کسی احتجاج میں ہی شریک ہوئے ہوں، پاکستان آنا تو دور کی بات ہے۔