اقبال اعوان :
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹرز بے لگام ہو گئے۔ من مانے کرائے کی وصولی کا سلسلہ بڑھ گیا۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ سندھ حکومت کا محکمہ ٹرانسپورٹ ان کے کرائے مقرر کرے۔
شہر میں 50 فیصد سفر کی سہولتیں فراہم کرنے والے بس مالکان کا واویلا ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہورہا ہے اور حکومتی اداروں کی عدم سنجیدگی سے پبلک ٹرانسپورٹر پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ مہنگائی کی شرح کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹرز شہریوں کو کسی صورت ریلیف دینے کو تیار نہیں ہیں۔ شہر میں سرکاری بسوں کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کی 10ہزار سے زائد بسیں، مزدا، کوچیں چل رہی ہی۔ اس طرح 50 فیصد پبلک ٹرانسپورٹ سفر کی سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹرز مہنگائی اور مرمت، اسپیئر پارٹس مہنگے ہونے کا رونا رو کر من مانے کرائے وصول کررہے ہیں۔
سرکاری بسوں کی آمد سے قبل شہریوں کو کرائے کے حوالے سے علم نہیں ہوتا تھا۔ اب سرکاری بسیں 50 روپے کرایہ وصول کررہی ہیں۔ جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ والی بسیں کم از کم کرایہ 20 سے 80 روپے، مزدا 30 روپے سے 100 روپے اور کوچیں 40 روپے سے 120 روپے یا اس سے زائد کرایہ وصول کررہی ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں موسم کے لحاظ سے سردی میں ٹھنڈی ہوا سے بچائو کے لیے کھڑکیوں میں شیشے نہیں ہوتے۔
گرمیوں میں پنکھے نہیں ہوتے۔ ان کی فٹنس نہ ہونے پر ٹوٹی پھوٹی اور چھوٹی سیٹوں پر شہری پریشان ہوتے ہیں۔ جبکہ ماڑی پور، بلدیہ، نیول کالونی، مواچھ گوٹھ اور دیگر علاقوں میں جہاں سرکاری بسوں کے روٹ نہیں ہیں، وہاں من مانے کرائے وصول کیے جاتے ہیں۔ مسافروں کی بڑی تعداد چھتوں پر موجود ہوتی ہے۔ معمولی بات یا کرایہ پورا نہ دینے پر مسافروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض کوچ اور بس والے ادھورا روٹ استعمال کرتے ہیں اور راستے میں لوگوں کو اتار کر چلے جاتے ہیں۔
کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے جنرل سیکریٹری محمد الیاس کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا ’’ہمیں خوشی ہے کہ شہریوں کو سفر کی اچھی اور سستی سہولتیں مل رہی یہں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ اب بھی 50 فیصد حصہ دار ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ سے مطالبہ ہے کہ ہمیں بلوا کر میٹنگ کریں اور ہمارے کے مسائل حل کریں۔ اس طرح شہریوں کا مسئلہ بھی حل ہو گا۔ 2011ء سے کرائے کے حوالے سے کوئی میٹنگ سرکاری سطح پر نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں کہ بالکل بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہمارا مقصد شہریوں کو محفوظ اور سستی سواری کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ اب چنگ چی رکشوں کے حوالے سے ٹریفک پولیس یا محکمہ ٹرانسپورٹ آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔‘‘
کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے جوائنٹ سیکریٹری جنرل محمد خیال خان کا کہنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو لاوارث کر دیا گیا ہے۔ شیریں جناح کالونی میں بس اڈے کو نشہ کرنے والوں، چوریاں کرنے والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جو بس اڈے موجود ہیں، ان کو سیکورٹی دی جائے اور سرکاری سطح پر بیٹھ کر بات کی جائے۔ اس طرح شہریوں کو سہولتیں ملیں گی۔