لاڑکانہ: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کو شہید کرکے ملک میں ایسی کٹھ پتلیوں کو مسلط کردیا گیا جو اقتدار کے لیے اپنے نظریے، منشور، ملک کی قومی سلامتی اور عوام کے حقوق پر سودا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
گڑھی خدابخش میں بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بینظیر بھٹو غریب عوام، پسماندہ علاقوں، ملک کے کمزور طبقے کی نمائندہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بنیں، نہ صرف پاکستان مگر عالمی سطح پرلیڈر مانی جاتی تھیں، عوام کی آواز کو بین الاقوامی سطح تک پہنچاتی تھیں اور اس ملک کے عوام کی حقیقی نمائندہ تھیں اور عوام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے شہادت پائی لیکن نظریے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے شہید بینظیر بھٹو کو شہید کیا ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ اب بینظیر بھٹو موجود نہیں ہوں گی تو سندھ، بلوچستان، پختونخوا، وسیب، پنجاب، وفاق، گلگلت بلتستان اور کشمیر کی حقیقی آواز ہمیشہ کے لیے دب جائے گی اور پاکستان میں صرف اور صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو اپنی اقتدار اور کرسی کی خاطر اپنے مؤقف، اپنے نظریے، منشور اور پاکستان کے عوام کے حق پر، صوبوں کے حق پر سودا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، پاکستان کی قومی سلامتی، ہمارے ایٹمی اثاثوں پر سودا کرنے اور سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کٹھ پتلیاں ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہوتے ہیں بس ان کو اسلام آباد کی کرسی پر بیٹھنے کا شوق ہوتا ہے اور 27 دسمبر 2007 سے آج تک ملک کے عوام اور ملک مشکل میں ہے تو صرف اس لیے تم نے بینظیر بھٹو کو شہید کرکے ہم پر ان کٹھ پتلیوں کو مسلط کردیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ملک ایک ایسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں مسئلے ہی مسئلے ہیں، اندرونی مسئلے ہیں، معاشی بحران ہے، دہشت گردی کا بحران ایک دفعہ پھر سر اٹھا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے نام لیےبغیر (ن)لیگ پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نہ سلیکیڈ نہ فارم 47والی ہے، ہم نےاس وقت فیصلہ کیا ،جومہنگائی میں کمی اوراستحکام لانےوالوں کا ساتھ دیں گے، ہم نےاس وقت معاہدے پردستخط کیے تھے، ایک سیاست دان ان کےبارے میں کہتا تھا جب مشکل میں ہو تو پاؤں جب نکل جاتےہوتوگریبان پکڑتےہیں۔
بلاول بھٹو زراری نے کہا کہ ہم جوابدہ ہیں تو ملک کی عوام اور پیپلز پارٹی کے جیالوں کو جواب دہ ہیں، جب حکومت سازی کا وقت تھا تو ہمارا کسی کرسی یا وزارت کا شوق نہیں تھا، اس وقت فیصلہ کیا تھا کہ جو سیاسی جماعت ہمارے پاس آئی ہے اور سیاسی استحکام، مہنگائی میں کمی کا وعدہ کر رہی ہے ہم اس کا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی پھر سر اٹھارہی ہے، ہر صوبے کے اپنے مسائل ہیں، بیرونی سطح پر پاکستان کے لیے بہت سے امتحان آنے والے ہیں، ہم نے ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع دیا، کوئی وزارت نہیں لی، ہم نےموجودہ حکومت سے صرف عوام کا حق مانگا، طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی ترقیاتی کام کروائے گی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ طے ہوا تھا کہ ملک کے پی ایس ٹی پی، وفاق کے چاروں صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں کو اتفاق رائے سے بنائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ہر مسلم لیگ کی حکومت میں سوتیلا سلوک کا سامنا کرنے والے پسماندہ علاقوں پر توجہ دی جاسکے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے اپنے لیے کوئی وزارت نہیں مانگی صرف اپنی عوام کا حق مانگا ہے اور آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس کے باوجود میں نے اپنے ممبران کو اسمبلی میں کورم پورا کرنے کے لیے بار بار مجبور کرتا ہوں اور حکومت کے ہر بل کو آنکھیں بند کرکے ووٹ ڈالیں لیکن جب وہ نمائندے اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو خالی ہاتھ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طریقے سے حکومتیں نہیں چلتی، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لے اور ہر مسئلے کا حل پارلیمان سے اتفاق کر کے منظور کرے، اگر ہم اس طریقے سے چلیں گے تو میں پر امید ہوں کہ ہم تمام ملکی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے، حکومت کے پاس صرف اجمتاعی فیصلے کرنے کا اختیار ہے، صدر پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ حکومت کو تجویز دی جائے کہ جو فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں وہ طاقت ور ہوتے ہیں اور مسائل کا اصل حل نکالتے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کا 5 سال حکومت مکمل کرنا سیاسی کارنامہ تھا، پورے ملک میں صدر مملکت نے اس وقت مفاہمت کے نام پر تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیا، جب مکمل یکجہتی کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے فیصلے لیے تو تاریخ میں پہلی بار صوبوں کو حقوق ملے اور 18 ویں ترمیم منظور ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور بین الاقوامی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے تو تمام فیصلے اتفاق رائے سے کرنے ہوں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا حکومت کے کینالوں کی پالیسی پر سخت اعتراض ہے اور یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یکطرفہ فیصلہ ہے۔