اسلام آباد: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل روکنے کی درخواست خارج کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
جواد ایس خواجہ کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 9 دسمبر 2024 کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست قبول کرے، موجودہ اپیل اور متعلقہ اپیلوں کی سماعت اس وقت تک ملتوی کی جائے جب تک 26 ویں ترمیم کی قانونی حیثیت طے نہ ہو جائے۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ متنازعہ حکم میں سے وہ بیان حذف کیا جائے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ درخواست دیانتداری پر مبنی نہیں اور صرف مقدمے میں تاخیر کے لیے دی گئی ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ درخواست کو غیر سنجیدہ قرار دینے کے فیصلے 20 ہزار روپے جرمانے کے حکم کو بھی ختم کیا جائے جبکہ آئینی ترمیم پر فیصلے تک خصوصی عدالتوں کے مقدمہ کی سماعت مؤخر کی جائے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے فیصلے میں سویلنز کا کورٹ مارشل کالعدم قرار دے چکی ہے، آئینی ترمیم پر فیصلے تک موجودہ بینچ کا فیصلہ متنازع ہی رہے گا۔
درخواست میں وفاق، صوبائی حکومت خیبرپختونخوا، صوبائی حکومت پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
20 جون 2023 کو سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔