فائل فوٹو
فائل فوٹو

گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے 19 ہزار اساتذہ بے نقاب

ارشاد کھوکھر :

سندھ میں گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے 19 ہزار اساتذہ بے نقاب ہوگئے ہیں۔ ان اساتذہ کے گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کے باعث صوبائی خزانے کو سالانہ تقریباً ساڑھے 11 ارب روپے کا جھٹکا لگ رہا ہے۔ خود محکمہ اسکول ایجوکیشن کی مانیٹرنگ ٹیموں نے ان اساتذہ کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ ان میں تقریباً 5 ہزار اساتذہ ایسے ہیں جو طویل عرصہ غیر حاضر رہے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے گھوسٹ ایمپلائی (فرضی) ہونے کا ریکارڈ بھی سامنے آسکتا ہے۔

مذکورہ 5 ہزار اساتذہ کو برطرف کرنے کے لئے فائنل نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ جبکہ دیگر غیر حاضر رہنے والے اساتذہ کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہوگی۔ علاوہ ازیں تین برس قبل آئی بی اے کا ٹیسٹ کلیئر کرنے والے امیدواروں میں سے ویٹنگ لسٹ میں شامل آفر لیٹر کے منتظر 28 ہزار اساتذہ کو اپائنٹمنٹ آرڈر ملنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔

گزشتہ ہفتے صوبائی وزیر ایجوکیشن سردار شاہ کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن و دیگر افسران کے ساتھ محکمہ اسکول ایجوکیشن کے کئی فیلڈ افسران نے بھی شرکت کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کو محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایولیوشن سیل، مولا بخش شیخ نے آگاہ کیا کہ اب تک جو مانیٹرنگ رپورٹس سامنے آئی ہیں.

ان کے مطابق تقریباً 19 ہزار اساتذہ ڈیوٹی سے غیر حاضر پائے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار اساتذہ برسوں سے ڈیوٹی سے غائب ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان افسران کو برطرف کرنے کے لئے صوبائی وزیر تعلیم کو سفارش کی گئی تھی۔ تاہم صوبائی وزیر تعلیم نے موقف اختیار کیا تھا کہ ایسے اساتذہ کو برطرف کرنے سے قبل ایک موقع ضرور دیا جائے، جس کے بعد انہیں نوٹسز جاری کئے گئے ہیں کہ وہ 15 دن کے اندر مجاز اتھارٹی کے پاس پیش ہوکر اپنا عذر پیش کریں۔ بصورت دیگر انہیں برطرف کردیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمے نے ایسے اساتذہ کو برطرف کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔

محکمہ اسکول ایجوکیشن کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جو مانیٹرنگ پالیسی تشکیل دی گئی ہے، اس کے مطابق مانیٹرنگ کے دوران جو اساتذہ مسلسل تین بار ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں انہیں عادی کام چور تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایسے اساتذہ کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں، جن میں برطرفی کی سزا بھی شامل ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ یہ پانچ ہزار اساتذہ فرضی (گھوسٹ) ایمپلائی ہوں جنہوں نے متعلقہ ٹریژری افسران اور محکمے کے متعلقہ افسران سے ملی بھگت کرکے جعلی آئی ڈیز بنواکر تنخواہیں لینا شروع کی ہوں۔ جبکہ 19 ہزار میں سے تقریباً 14 ہزار اساتذہ ایسے ہیں جو مانیٹرنگ کے دوران تین بار سے کم غیر حاضر رہے ہیں۔ ایسے اساتذہ کو ایک چانس اور دیا جائے گا۔ تاہم ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ضرور ہوگی ۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کئی اساتذہ ایسے ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے جس کا انحصار ان کی سینیارٹی پر ہوتا ہے۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق ایک ٹیچر کی ماہانہ تنخواہ اگر پچاس ہزار روپے بھی ہو تو اس حساب سے 19 ہزار اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ کم از کم 95 کروڑ روپے اور سالانہ تنخواہ 11 ارب 40 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اس طرح اگر پانچ ہزار عادی کام چور اساتذہ کو دیکھا جائے تو ان کی سالانہ تنخواہ بھی تین ارب روپے سے زائد ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بروقت رپورٹ نہ کرنے اور کئی اساتذہ کو بلاوجہ تنگ کرنے کے لئے ان کا تبادلہ متعلقہ علاقوں کے بجائے دیگر علاقوں میں کرنے پر صوبائی وزیر نے محکمے کے مختلف ڈائریکٹرز، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران و دیگر متعلقہ افسران پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسکول ایجوکیشن کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے پر غور کیا جارہا ہے، جس کے تحت اساتذہ کی تنخواہیں ان کی حاضری کی بنیاد پر جاری ہوں گی۔ اس سلسلے میں اے جی سندھ کو بھی اس سے منسلک کیا جائے گا۔

محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لئے تقریباً تین برس قبل آئی بی اے سکھر کے توسط سے مختلف امیدواروں سے ٹیسٹ لئے گئے تھے۔ اس سلسلے میں یہ پالیسی بنائی گئی تھی کہ محکمہ میں تین برس کے دوران اساتذہ کی جو بھی اسامیاں خالی ہوں گی، ان پر مذکورہ ٹیسٹ کلیئر کرنے والے امیدواروں کو مرحلہ وار بھرتی کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ٹیسٹ میں پانچ لاکھ سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا، جن میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد امیدوار ٹیسٹ پاس کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ گزشتہ ہفتے وزیر تعلیم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے تقریباً 78 ہزار 441 امیدواروں کو آفر لیٹر جاری کئے گئے تھے، جن میں 55 ہزار 556 پرائمری اسکول ٹیچر (پی ایس ٹی) اور 22 ہزار 875 جونیئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچر (جے ایس ٹی) شامل ہیں۔ ان میں سے چھان بین کے بعد 75 ہزار 646 امیدواروں کو اپائنٹمنٹ لیٹر جاری ہوئے۔

ان میں سے 73 ہزار 994 امیدوار ڈیوٹی جوائن کرچکے ہیں۔ تاہم ان امیدواروں میں سے تقریباً 10 ہزار 366 ایسے ہیں جو دیگر سرکاری ملازمتیں ملنے کے باعث پہلی نوکری چھوڑ رہے ہیں۔ ان میں کئی ایسے امیدوار بھی ہیں جنہوں نے پی ایس ٹی کا اپائنٹمنٹ آرڈر دیا۔ لیکن انہوں نے بعد میں جے ایس ٹی کا ٹیسٹ بھی پاس کرکے اس کو جوائن کرنے کو ترجیح دی۔ اور بعض امیدوار ایسے بھی تھے جو سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دیگر سرکاری محکموں میں بھرتی ہوئے ہیں۔ اس طرح اب تک عملی طور پر 62 ہزار سے زائد امیدوار اساتذہ کی اسامیوں پر بھرتی ہوچکے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ آئی بی اے کا ٹیسٹ پاس کرنے والے امیدواروں میں سے تقریباً 28 ہزار امیدوار ایسے تھے جن کا نام ویٹنگ لسٹ میں تھا اور وہ امیدوار مسلسل احتجاج بھی کرتے رہے ہیں کہ انہیں آفر لیٹر دیا جائے۔ تاہم حکومت سندھ کو اس سلسلے میں ایک دقت یہ پیش آرہی تھی کہ جب مذکورہ ٹیسٹ لئے گئے تھے تو ان امیدواروں کو بھرتی کرنے کے لئے تین برس کی مدت طے کی گئی تھی۔ مذکورہ مدت 28 فروری 2025ءکو ختم ہوجائے گی۔ جس کے باعث محکمہ اسکول ایجوکیشن نے یہ اعلان کیا ہے کہ ایسے اساتذہ 30 جون تک خالی ہونے والی اسامیوں پر بھرتی ہوسکیں گے۔

اس سلسلے میں اگر سرکاری بھرتیوں کے لئے مطلوبہ عمر کی حد بڑھ جاتی ہے تو اس کا اطلاق ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے ان امیدواروں پر نہیں ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ 2025ءمیں بڑے پیمانے پر اساتذہ ریٹائر ہورہے ہیں جس کے باعث یہ امید کی جارہی ہے کہ ویٹنگ لسٹ میں شامل مذکورہ 28 ہزار امیدواروں میں سے بیشتر امیدوار بھی بھرتی ہوجائیں گے۔ محکمہ تعلیم کی کوشش ہے کہ تقریباً مذکورہ تمام امیدواروں کی بھرتی کو یقینی بنایا جائے۔