ارشاد کھوکھر:
سندھ کے محکمہ خوراک کی کرپشن مافیا نے صوبائی حکومت کو دوہری چال میں پھنسادیا ہے۔ جس کے باعث حکومت سندھ کی 183 ارب سے زائد کی رقم ڈوبنے کے خدشات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ تاہم آئی ایم ایف کی شرائط میں مافیا کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کا راستہ مستقل طور پر روک لیا ہے۔ جس سے نا صرف آٹے کے نرخوں میں مستقل استحکام رہنے کی امید ہے، بلکہ صوبے بھر میں صرف سرکاری گندم کے کوٹے پر گزارہ کرنے والی اور چور فلور ملوں میں سے ایک سو سے زائد فلور ملیں بھی بند ہوجائیں گی۔
اس ضمن میں باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 27 فروری کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت منعقدہ سندھ کابینہ کے اجلاس کو بتایا گیا کہ محکمہ خوراک کے پاس 13 لاکھ 76 ہزار ٹن یعنی فی سوکلوگرام کی ایک کروڑ 37 لاکھ 60 ہزار بوری گندم کے ذخائر موجود ہیں۔ مذکورہ فی بوری گندم محکمہ خوراک کو 13 ہزار 338 روپے میں پڑتی ہے۔ اس طرح مذکورہ گندم کی مالیت اس وقت بھی 183 ارب 53 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اوپن مارکیٹ میں فی بوری گندم کے سودے سات ہزار سے ساڑھے سات ہزار روپے تک ہورہے ہیں۔ اس طرح صوبائی حکومت اگر فی بوری گندم پر 6 ہزار روپے کی سبسڈی دے گی تو گندم نکل سکے گی، بصورت دیگر وہ گندم گوداموں میں پڑی رہے گی۔ جس سے گندم کے خراب ہونے کے خدشات بھی برقرار رہیں گے۔
کابینہ کے اجلاس میں یہ بات بھی زیر غور آئی کہ آبادگاروں کا مطالبہ ہے کہ سرکاری گندم ابھی فروخت نہیں کی جائے کیونکہ ایک دو ہفتے میں گندم کی نئی فصل آنے والی ہے۔ اس صورتحال میں اگر سرکاری گندم فروخت کی گئی تو اس سے آبادگاروں کو نئی فصل کی گندم کی مناسب قیمت نہیں مل سکے گی۔ جس کے باعث صوبائی کابینہ نے سرکاری گندم نکالنے کا فیصلہ موخر کردیا۔ ساتھ ہی کابینہ کے اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کے متعلق مختلف شعبوں کے حوالے سے جو شرائط رکھی ہیں اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ چاول اور دیگر زرعی اجناس کی طرح گندم کو بھی اوپن مارکیٹ کے میکینزم پر چھوڑا جائے۔ اور حکومت گندم کی مد میں کھربوں روپے کی جو سالانہ سبسڈی برداشت کرتی ہے، اسے ختم کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی کئی شرائط ملکی صارفین کے لئے انتہائی کڑی ہیں لیکن گندم پر سبسڈی نہ دینے کی آئی ایم ایف نے جو شرط عائد کی ہے اس سے ناصرف ملکی معیشت کو مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ اس سے آٹے کی مد میں صارفین کو بھی ریلیف ملے گا۔ کیونکہ سرکاری گندم پر جو سبسڈی دی جاتی ہے اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ سبسڈی کی وہ رقم ملی بھگت سے محکمہ خوراک کی کمیشن و خوردبرد مافیا اور فلور ملوں کے مالکان پر مشتمل آٹا مافیا کی نذر ہوجاتی ہے۔ تمام گندم کو اوپن مارکیٹ کے میکینز پر چھوڑنے سے مستقل طور پر آٹے کے نرخوں میں استحکام رہے گا اور اب ایسی نوبت نہیں آئے گی کہ عوام دوسال پہلے کی طرح 170 اور 180 روپے فی کلو آٹا خریدیں۔ اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے سے عملی طور پر آر ای سی پی کی طرح صوبوں میں خوراک کے محکمے بند ہوجائیں گے جس سے ہر سال اربوں روپے مالیت کی سرکاری گندم خوردبرد ہونے کا باب بھی مستقل طور پر بند ہوجائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ محکمہ خوراک کی مافیا کے ان کارناموں کی وجہ سے یہ بات طے ہے کہ سندھ کے محکمہ خوراک کے پاس 183 ارب روپے مالیت کی جو گندم پڑی ہے، وہ بھی مافیا کی نذر ہوجائے گی کیونکہ سرکاری ریکارڈ میں اس وقت جو گندم کے ذخائر ظاہر کئے جارہے ہیں اس میں سے پانچ سے سات لاکھ بوری گندم گوداموں میں موجود ہی نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کی جون کے بعد اگر گندم فروخت بھی ہوجائے تو پھر بھی فی بوری پر 6 ہزار روپے کے حساب سے صوبائی حکومت کو 82 ارب روپے کی سبسڈی برداشت کرنی پڑے گی۔ اس طرح کمیشن و خوردبرد مافیا کے کرتوتوں کی باعث حکومت سندھ دوہری چال میں پھنس چکی ہے۔