دوران آپریشن ایک بوگی کا دروازہ توڑنا پڑا، فائل فوٹو
 دوران آپریشن ایک بوگی کا دروازہ توڑنا پڑا، فائل فوٹو

جعفر ایکسپریس کے 117 خوش نصیب مسافر

امت رپورٹ :

دہشت گردی کا نشانہ بننے والی جعفر ایکسپریس کے 117 (ایک سو سترہ) ایسے خوش نصیب مسافر بھی تھے، جو ٹرین میں سوار ہونے سے رہ گئے بصورت دیگر اگر وہ جان بچانے میں کامیاب بھی ہو جاتے تو کم از کم انہیں اور ان کی فیملی کو ہولناک تجربے سے ضرور گزرنا پڑتا۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق کالعدم بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنائی جانے والی ٹرین جعفر ایکسپریس کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوئی تو اس میں 323 (تین سو تئیس) مسافر سوار تھے۔ ریلوے ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 440 (چار سو چالیس) مسافروں کی بکنگ ہوئی تھی۔ ان میں 427 (چار سو ستائیس) عام مسافر اور 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 (تیرہ) ریلوے کے ملازمین تھے۔ تاہم جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ کوئٹہ سے روانگی کے وقت ٹرین میں 323 (تین سو تئیس) مسافر سوار ہوئے۔ کیونکہ باقی 117 (ایک سو سترہ) مسافروں کی بکنگ اگلے ریلوے اسٹیشنوں سبی، ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار سے تھی۔ تاہم ان ریلوے اسٹیشنوں پر ٹرین کے پہنچنے سے پہلے ہی دہشت گردوں کا حملہ ہوگیا۔ یوں یہ باقی ماندہ ایک سو سترہ مسافر ٹرین میں سوار نہ ہو سکے اور ایک دلدوز صورت حال سے بچ نکلے۔

واضح رہے کہ کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہونے والی جعفر ایکسپریس کے مجموعی طور پر 40 (چالیس) اسٹاپ ہیں۔ یہ صبح 9 بجے کوئٹہ سے روانہ ہوتی ہے اور سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی 34 (چونتیس) گھنٹے 27 (ستائس) منٹ میں شام ساڑھے سات بجے اپنی منزل مقصود پشاور کینٹ پہنچتی ہے۔ کوئٹہ سے جعفر ایکسپریس کا دوسرا اسٹاپ کول پور اور تیسرا مچھ ہے۔ چوتھا اسٹاپ گم ریلوے اسٹیشن ہے۔ ٹرین یہاں سے روانہ ہوئی تو اگلے اسٹیشن پہنچنے سے قبل ہی ایک پہاڑی علاقے میں دہشت گردوں نے مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس سے اگلے چار ریلوے اسٹیشن بالترتیب سبی، بختیار آباد ڈومکی، ڈیرہ مراد جمالی اور ڈیرہ اللہ یار کے ہیں۔ جہاں سے مزید ایک سو سترہ مسافروں میں سے بیشتر نے سوار ہونا تھا۔

دہشت گردی کے اس واقعہ سے جڑی ایک اور ان کہی کہانی پاک فوج کے ایک افسر کی بہادری سے متعلق ہے۔ جو ٹرین کے مسافروں میں موجود تھے ۔ پاک فوج کے اس حاضر سروس افسر کا نام کیپٹن رضوان ہے۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ جب درجنوں مسلح حملہ آوروں نے ٹرین کو یرغمال بنالیا تو بہت سے دہشت گرد اس بوگی میں بھی داخل ہوئے، جہاں کیپٹن رضوان اپنے دیگر ساتھی مسافروں کے ساتھ موجود تھے۔ چونکہ ٹرین میں سوار بیشتر سیکورٹی اہلکار چھٹی پر گھروں کو جا رہے تھے۔ چنانچہ ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔

بوگی میں داخل ہونے والے جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کے سامنے سرنڈر ہونے کے بجائے کیپٹن رضوان اور ان کے نہتے ساتھیوں نے زبردست مزاحمت کی۔ دہشت گردوں کو اس غیر متوقع جرأت کی توقع نہیں تھی۔ چنانچہ پہلے ہلے میں وہ بوکھلا گئے اور بوگی سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ بوگی میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے دہشت گردوں کو کافی جد وجہد کرنی پڑی۔

بدھ کی شام جب سیکiورٹی فورسز نے سویلین اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت مزید 168 (ایک سو اڑسٹھ) یرغمالیوں کو بازیاب کرایا تو ان میں کیپٹن رضوان شامل تھے۔ یرغمال بنائے گئے مسافروں نے ایس ایس جی کمانڈوز کو اپنے سامنے دیکھا تو بہت سے یرغمالی ان کی طرف دوڑے، جنہیں حفاظت کے ساتھ قریب موجود خشک نالے میں پہنچا دیا گیا۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ تو بتا چکے ہیں کہ تینتیس دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ جبکہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی دہشت گرد 21 (اکیس) بے گناہ مسافروں کو شہید کر چکے تھے۔ ’

’امت‘‘ کو حاصل اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ جب ایس ایس جی کمانڈوز اور سیکیورٹی فورسز آپریشن کے آخری مرحلے میں جائے وقوعہ پر پہنچے تو 8 سے 10 مسافروں کی لاشیں ٹرین کے باہر پڑی تھیں، جنہیں دہشت گردوں نے بے دردی سے قتل کیا۔ 7 ٹرین کی ایک بوگی میں تھیں۔ جبکہ دیگر لاشیں ایک دوسری بوگی میں تھیں، جنہیں فوری طور پر سی ایم ایچ کوئٹہ پہنچایا گیا۔ شہید ہونے والے ایف سی اہلکاروں میں سے تین ریلوے پکٹ پر تعینات تھے۔ ایف سی کا ایک جوان دوران آپریشن شہید ہوا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایس ایس جی کمانڈوز کی جانب سے بوگیوں کے کلئیرنس آپریشن کے دوران ایک بوگی لاک تھی۔ لہذا اس کا دروازہ توڑنا پڑا۔ خدشہ تھا کہ بوگی کے اندر کہیں دھماکہ خیز مواد نہ ہو۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ملا۔ دوسری جانب ایس ایس جی کے اسنائپر نے خود کش جیکٹس پہنے ان تین دہشت گردوں کو بدھ کی صبح ہی مار ڈالا تھا، جو ٹولیوں کی شکل میں بٹھائے گئے یرغمالیوں کے درمیان موجود تھے۔ بصورت دیگر بڑے جانی نقصان کا خدشہ تھا۔ تاہم ایس ایس جی کے ماہر نشانہ بازوں نے انہیں پھٹنے سے قبل ہی اگلے جہاں پہنچا دیا۔ باقی دہشت گردوں میں سے کچھ کو بوگی کے اندر اور بعض کو ٹرین کے باہر جائے وقوعہ پر ٹھکانے لگایا گیا۔ ایک دہشت گرد کو زندہ گرفتار کرنے کی بھی اطلاع ہے۔

قصہ مختصر جعفر ایکسپریس کے اغوا کا ڈراپ سین ہو چکا۔ اسپیشل آپریشنز گروپ نے نہایت ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے بہت سی قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے نہایت مہارت سے کام لیا۔ یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، جس میں دہشت گردوں نے ایک ٹرین کو ہائی جیک کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔