محمد قاسم :
صوبہ خیبرپختون میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عوام میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی خیبرپختون وسطی کے امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی صدر عبدالواسع نے کہا ہے کہ ملک بھر اور خاص کر صوبہ کے پی میں امن و امان کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی عملداری سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
جید علمائے کرام اور مدارس دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے پشاور میں ممتاز عالم دین مفتی منیر شاکر پر قاتلانہ حملے میں شہادت سمیت ایک ہی دن میں صوبے کے سات اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور حکومت کی ناکامی کی عکا س قرار دیا ہے۔ جبکہ تاجر اتحاد کے صدر مجیب الرحمن نے کہا ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد میں دھماکے اور علمائے کرام کی ٹارگٹ کلنگ افسوسناک ہے۔ یہ عوام اور مذہبی طبقے کے خلاف گہری سازش ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مفتی منیر شاکر سمیت دیگر علمائے کرام اور عوام کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔
ادھر عیدالفطر قریب آنے کے باوجود پشاور کے بازاروں میں خریداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اکوڑہ خٹک میں جامعہ حقانیہ میں خود کش حملے کے بعد بنوں میں چھائونی اور پشاور میں ممتاز عالم دین مفتی منیر شاکر پر بم حملوں کے بعد پولیس تھانو ں اور اہلکاروں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اسی خوف کی وجہ سے عوام گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صوبے میں شدید بد امنی پر چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرینز اور سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ صوبہ جل رہا ہے۔ بیان بازی کے بجائے وزیراعلیٰ فوری اقدامات کریں۔
محمود خان نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ بیان بازی کے بجائے فوری اقدامات اٹھائیں۔ امن و امان قائم رکھنے کیلئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ صوبے میں گورننس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ جبکہ بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ دہشت گردی صوبائی نہیں قومی مسئلہ ہے۔ اس کے خلاف جدوجہد میں تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین دنوں میں پولیس نے دہشت گردوں کے متعدد حملے ناکام بنائے۔ بنوں اور لکی مروت کے اضلاع میں عوام پولیس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے اور دہشت گرد حملوں کو پسپا کیا۔ صوبائی حکومت بہادر پولیس اور غیور عوام کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام کے تعاون کے بغیر شر پسند عناصر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ملک کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور دہشت گردی صرف صوبائی ہی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ فاٹا انضمام کے بعد صوبے کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ لیکن این ایف سی ایوارڈ میں اس کے مطابق حصہ نہیں دیا جا رہا۔ اے آئی پی پروگرام کے تحت وفاق کے ذمے 700 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ لیکن اب تک صرف 132 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ نیٹ ہائیڈل کے 2 ہزار ارب روپے کے بقایا جات بھی صوبے کو ادا نہیں کیے جا رہے جو ان حالات میں صوبے کے ساتھ شدید ناانصافی ہے۔ تاہم اس وقت پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں پر عوام شدید خوفزدہ ہیں اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ شدید خوف کے باعث خاص کر پشاور کے عوام بازاروں اور رش والی جگہوں پر جانے سے بھی کترا رہے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔