نواز طاہر :
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر احتیاطی تدابیر میں اضافہ کردیا گیا ہے اور خاص طور پر دوسرے صوبوں سے میں آنے اور جانے والوں کو سفر موخر کرنا پڑ رہے ہیں۔ ان میں بلوچستان میں ملازمت اور کاروبار کرنے والے افراد اور خاندان بھی شامل ہیں۔ اس احتیاط کی سطح پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچوں تک بھی پہنچ گئی ہے اور انہوں نے بھی بلوچستان میں سرگرمیاں محدود کردی ہیں۔
واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد سے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے جس سے صوبہ بلوچستان میں معمولاتِ زندگی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان سے پنجاب آنے والے راستے خطرناک قرار دیئے جارہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے جیسے ہی سی پیک منصوبے میں پیش رفت تیز ہوئی ہے، بلوچستان میں بد امنی کے واقعات میں بھی اسی شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور سانحہ جعفر ایکسپریس بھی اسی کی ایک کڑی تھا۔ جبکہ تازہ ترین واردات قلات کے ایک گائوں میں کی گئی جہاں چار مزدور وں کو شناخت کرکے قتل کردیا گیا جن کا تعلق پنجاب کے سرحدی علاقے صادق آباد سے تھا۔ جبکہ اسی روز نوشکی میں چار پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان میں شناخت کرکے ہلاک کیے جانے والے غیر بلوچوں اور غیر مقامی افراد کے ساتھ ساتھ وہ افراد بھی نشانہ بنائے جارہے ہیں جن پر ریاست کے حوالے سے مثبت خیالات کا حامی تصور کیا جاتا ہے، جس سے یکجہتی اور سماجی بہبود کے منصوبے اور امدادی کام بھی ٹھپ ہو رہے ہیں اور عام شہری اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پنجگور کی تحصیل گوراگو میں بھی گاڑی پر فائرنگ کرکے ایک خاتون کو ہلاک کیا گیا اور اس کے شوہر کو بھی اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس پر پنجگور کے سیاسی و سماجی حلقوں نے اس واردات کو بلوچ روایات کے منافی قراردے کر اس کی شدید مذمت کی تھی۔ قبل ازیں اسی علاقے میں سندھ سے تعلق رکھنے والے حجام کی دکان پر کام کرنے والے تین مزدوروں کو بھی قتل کیا گیا۔
بلوچستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سندھ اور پنجاب کی طرف جانے والی سڑکوں کے ساتھ ساتھ ذیلی راستوں پر بھی سخت نگرانی کی جارہی۔ ان ذرائع کے مطابق سیکورٹی فورسز کی گشت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان سے ملحقہ پنجاب میں رکھنی کے علاقے میں عمومی طور پر صورتحال بہتر تصور کی جاتی تھی، لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچ ذرائع نے بتایا ہے کہ اب یہ علاقہ بھی پہلے جیسا محفوط نہیں رہا۔ البتہ یہ بند نہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ شدت پسند بلوچ پنجاب میں بسنے والے بلوچوں کو بھی پنجابی ہی قرار دیتے ہیں اور مادری زبان نہ جاننے والے بلوچ ان دنوں بلوچستان میں سفر سے گریزاں ہیں جن کی مادری زبان مکمل طور پر سرائیکی بن چکی ہے۔ اندرو ن صوبہ بلوچستان مخصوص علاقوں میں مسائل اس کے علاوہ ہیں لیکن سوشل میڈیا پر انہیں بد ترین صورتحال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جہاں مخصوص انداز میں شر انگیزی پھیلائی جاتی ہے۔ اسی سوشل میڈیا پر اتوار کو بھی مختلف سڑکوں پر مبینہ حملہ آوروں کی چیکنگ اور حملوں کی کارروائیاں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی مسافر کو نشانہ بنانائے جانے کا ذکر نہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالات نارمل ہونے کی طرف تیزی بڑھ رہے ہیں ۔
دوسری جانب سیکورٹی اداروں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے جن میں گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیاںبھی شامل ہیں۔ ان کے ذرائع کے مطابق حالات اچھے نہیں ہیں لیکن ایسے بھی نہیں کہ ملک یا صوبہ ہی جام ہوگیا ہو۔ سیکورٹی پہلے سے زیادہ اور بہتر ہوئی ہے۔ جبکہ پبلک ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ گاڑیاں بھی چل رہی ہیں ، مسافر بھی منزل پر پہنچ رہے ہیں اور اب تو کچھ زیادہ بہتر سفر لگنے لگا ہے۔ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی انتظامیہ نے بتایا کہ عید الفطر تک ان کی بکنگ تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور کوئی سیٹ بھی خالی نہیں۔ ان کے مطابق سیکیورٹی بڑھائے جانے سے سفر پہلے سے زیادہ محفوظ ہوچکا ہے۔