فائل فوٹو
فائل فوٹو

عید بعد احتجاج پر پی ٹی آئی الجھن کا شکار

امت رپورٹ :
تحریک انصاف عید کے فوری بعد احتجاجی تحریک کے حوالے سے الجھن کا شکار ہے۔ اس حوالے سے پارٹی کے مختلف رہنما الگ الگ باتیں کر رہے ہیں۔ تاحال اس حوالے سے پارٹی کا کو ئی حتمی یا ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا ۔

واضح رہے کہ شبلی فراز سمیت پی ٹی آئی کے مختلف رہنما عید بعد احتجاجی تحریک کے اشارے دے رہے ہیں۔ ماضی قریب میں پی ٹی آئی کے جتنے بھی احتجاج ہوئے، ان کا بیس کیمپ خیبر پختونخوا رہا ہے۔ کیونکہ وہاں ان کی حکومت ہے۔ اس نوعیت کے دو لانگ مارچ کی قیادت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کرچکے ہیں۔

گزشتہ برس نومبر کے احتجاجی مارچ میں ان کے ہمراہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی تھیں۔ لیکن یہ دونوں احتجاجی مارچ ناکام رہے۔ ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس بار بھی پی ٹی آئی کسی احتجاجی مارچ یا اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کرتی ہے تو بیس کیمپ خیبر پختونخوا ہی ہوگا اور مرکزی قافلے وہیں سے روانہ ہوں گے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کی کال پر پنجاب باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ پچھلے دو احتجاجی مارچ اس کے واضح ثبوت ہیں۔ اگر احتجاجی مارچ کا اعلان ہوتا ہے تو اس بار خیبرپختونخوا سے قیادت گنڈا پور کے بجائے جنید اکبر کے ہاتھوں میں ہوگی۔ کیونکہ اب وہ صوبائی صدر ہیں۔ اس لئے عید بعد احتجاج سے متعلق زیادہ اہمیت بظاہر جنید اکبر کے بیان کی ہو نی چاہیے۔

چند روز پہلے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب ان سے عید کے بعد احتجاج سے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’’ہماری طرف سے احتجاج کی تیاری پوری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کی طرف جائیں۔ لیکن یہ ہماری خواہش ہے، ہماری ضرورت نہیں۔ اکتوبر اور نومبر کے احتجاج میں ہم سے غلطیاں ہوئیں۔ اب ہماری کوشش ہوگی کہ ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ ہمارے پاس اسلام آباد جانے اور مختلف اضلاع اور سڑکوں کو بند کرنے کے مختلف آپشنز ہیں، جسے عمران خان فائنل کریں گے‘‘۔

جنید اکبر کے بیان سے یہ تو واضح ہوگیا کہ ابھی تک اگلے احتجاج سے متعلق عمران خان نے کوئی لائحہ عمل فائنل نہیں کیا۔ اس لیے عید کے فوری بعد احتجاجی لانگ مارچ کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ جنید اکبر جس احتجاج کی تیاری کا ٹی وی پر بیٹھ کر دعویٰ کر رہے ہیں، کیا اصل حقائق بھی یہی ہیں؟ اس کی سن گن لینے کے لیے جب ’’امت‘‘ نے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے اندرونی ذرائع سے رابطہ کیا تو اس دعوے سے مختلف کہانی سامنے آئی۔ چند روز پہلے احتجاج کے حوالے سے خود جنید اکبر سے بات کرنے والے ایک سابق پارٹی عہدے دار نے بتایا کہ میڈیا پر بیانات محض کارکنوں کو رام کرنے یا ماحول کو گرم رکھنے کے لیے دیئے جارہے ہیں۔ پس پردہ فی الحال ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ چل رہا ہے۔

اسلام آباد کی جانب مارچ جیسے کسی احتجاج کی پشاور یا خیبرپختونخوا کے کسی اور شہر میں کوئی تیاری نہیں کی جارہی ہے۔ حتی کہ اب تک پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کا تنظیمی ڈھانچہ بھی بحال نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مارچ کے مہینے کے اوائل میں تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی تمام تنظیمیں تحلیل کردی گئی تھیں۔ اس حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ صوبائی صدر جنید اکبر خان نے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں تمام ریجنل صدور اور جنرل سیکریٹریز کے عہدے فوری طور پر ختم کر دیئے ہیں۔ تاہم تقریباً ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی نئے عہدے داروں کا تقرر نہیں کیا جا سکا ہے۔ اب تک صرف دو ریجن پشاور اور مالاکنڈ میں نئے صدور کا تقرر کیا گیا ہے۔

پشاور ریجن کا صدر اور جنرل سیکریٹری بالترتیب عاطف خان اور ارباب شیر علی کو مقرر کیا گیا ہے۔ جبکہ صاحبزادہ صبغت اللہ کو پی ٹی آئی مالاکنڈ ریجن کا صدر اور ریاض خان کو جنرل سیکریٹری بنایا گیا ہے۔ باقی پانچ ریجنز کے صدور اور سیکریٹری جنرلز کا تقرر ہونا باقی ہے۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے اندرونی ذرائع کے مطابق جہاں ایک طرف ابھی تک صوبے کے تمام تنظیمی عہدوں پر تقرری نہیں ہوسکی ہے۔ وہیں اب تک صوبائی صدر جنید اکبر اور وزیر اعلیٰ گنڈاپور کے درمیان سرد جنگ کا خاتمہ بھی نہیں ہو سکا ہے۔ ایسے میں عید بعد تحریک کیا خاک چلے گی۔

اس اندرونی چپقلش کی واضح مثال جنید اکبر کی جانب سے پشاور جیسے اہم ریجن کا صدر عاطف خان کو مقرر کرنا ہے، جن کی گنڈاپور کے ساتھ مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور وہ خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے بعد مضبوط امیدوار تھے۔ تاہم گنڈاپور نے انہیں صوبائی ٹکٹ حاصل نہیں کرنے دیا تھا کہ خطرے کی تلوار نہ لٹک جائے۔ بعد ازاں عاطف خان قومی اسمبلی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر ایوان زیریں میں پہنچ گئے اور صوبے سے ان کا تعلق کٹ گیا۔ لیکن اب اپنے قریبی ساتھی اور صوبائی صدر جنید اکبر کی نوازش سے صوبے میں پارٹی کے ایک اہم عہدے دار کی حثیت سے ان کی واپسی ہوئی ہے۔

ادھر سابق پارٹی عہدے دار کے بقول سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور دیگر مرکزی قیادت کی کوشش ہے کہ اس بار ’’سولو فلائٹ‘‘ کے بجائے، ساری اپوزیشن کو ساتھ لے کر احتجاجی تحریک چلائی جائے، کیونکہ اب تک پی ٹی آئی نے تنہا جو بھی احتجاجی مارچ کیا ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ الٹا پارٹی پر مزید سختیاں آ ئی ہیں۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام سمیت کسی بڑی اپوزیشن پارٹی سے احتجاجی تحریک سے متعلق کوئی حتمی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی پچھلے ایک برس سے اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی ہے۔ گزشتہ برس ماہ رمضان میں بھی پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ عید کے بعد گرینڈ اپوزیشن مشترکہ احتجاجی تحریک چلے گی۔ لیکن دوسری عید آگئی، اب تک اس کے آثار نہیں۔ سابق پارٹی عہدے دار کے بقول سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے جنید اکبر کو واضح کیا ہے کہ احتجاجی تحریک یا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سمیت کسی بھی نوعیت کے احتجاج کا فیصلہ مر کزی قیادت نے عمران خان سے مشاورت کے بعد کرنا ہے۔ بطور صوبائی صدر وہ اس طرح کے بیانات دینے سے گریز کریں۔

اس سے پہلے ایک ٹی وی چینل پر بھی سلمان اکرم راجہ، بانی پی ٹی آئی سے منسوب اس بیان کی سختی سے تردید کر چکے تھے کہ عمران خان نے عید کے بعد سڑکیں گرم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔