ایف بی آر، ایف آئی اے، کسٹمز اور پولیس کے رشوت خور افسروں کی خفیہ سرمایہ کاری کا سراغ لگایا جا رہا ہے، فائل فوٹو
ایف بی آر، ایف آئی اے، کسٹمز اور پولیس کے رشوت خور افسروں کی خفیہ سرمایہ کاری کا سراغ لگایا جا رہا ہے، فائل فوٹو

بدعنوان سرکاری افسران حساس اداروں کے ریڈار پر آگئے

عمران خان :

بدعنوان سرکاری افسران کی کالے دھن سے خفیہ سرمایہ کاریوں اور کاروبار کو ٹریس کرنے کے لئے حساس ادارے بھی سرگرم ہوگئے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے سینکڑوں افسران نے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے ملک اور بیرون ملک خفیہ سرمایہ کاریاں کر رکھی ہیں جن سے خطیر منافع مسلسل ن کے خاندانوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ مذکورہ سرمایہ کاریوں کے لئے انہوں نے اربوں روپے کا کالا دھن کرپشن اور جرائم کی پشت پناہی کے ذریعے حاصل کیا۔ تاہم اس کو سفید کرنے کے لئے مارکیٹ میں اپنے بااعتماد فرنٹ مین اتار دیے۔

موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کراچی میں حساس ادارے نے ایف بی آر، کسٹمز، پولیس اور ایف آئی اے سمیت مختلف سرکاری اداروں کے افسران کی خفیہ سرمایہ کاری میں فرنٹ مین کا کردار ادا کرنے والے کلیئرنگ ایجنٹس، امپورٹر، ایکسپورٹرز، بولی دہندگان ( بڈرز ) اور بلڈرز کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ تحقیقات ان اطلاعات کی روشنی میں شروع کی گئی ہیں جن کے مطابق گزشتہ کئی برسوں میں اسمگلنگ، ٹیکس چوری، مالیاتی فراڈ اور کرپشن کی سہولت کاری سے اربوں روپے کا کالا دھن کمانے والے کسٹمز افسران نے دولت کو سفید کرنے اور مزید منافع بخش بنانے کے لئے فرنٹ مینوں سے خفیہ سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

اطلاعات کے مطابق فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے مختلف تحقیقاتی اداروں کو چھان بین کے لئے جاری کی جانے والی مختلف ایس ٹی آرز ( سسپیشیئس ٹرانزیکشنز رپورٹس ) کی انکوائریوں میں انکشاف ہوا کہ کئی معمولی آمدنی رکھنے والے افراد ہیں جنہوں نے کروڑوں اربوں روپے مالیت کے سودے کئے۔ ان کے حوالے سے مزید چھان بین میں معلوم ہوا کہ ان میں کئی ایسے درآمد کنندگان تھے جنہوں نے بیرون ملک سے بھاری مالیت کا سامان منگوایا۔ جبکہ کئی ایسے بولی دہندگان ہیں جنہوں نے مختلف ٹرمینلز سے نیلامیوں میں ایک، ایک کھیپ کروڑوں روپے مالیت کی اٹھا کر مارکیٹ میں سپلائی کی اسی طرح سے کئی بلڈرز ایسے ہیں، جنہوں نے خطیر رقوم کے پلاٹوں کے سودے کرکے ان پر تعمیرات کیں اور بھاری منافع کمایا۔

اس طرح کے کئی افراد کی خفیہ نگرانی اور مالیاتی لین دین کے ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ یہ افراد مختلف سرکاری اداروں کے افسران سے یومیہ بنیادوں پر رابطے میں رہتے تھے جنہوں نے ان کی اپنے اپنے شعبوں میں مہارت کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ کمیشن کے عوض ان سے اپنے خفیہ سرمایہ کو کاروبار میں کھپایا اور ساتھ ہی ان کی ہر قدم پر سہولت کاری کرتے رہے۔ مزید معلوم ہوا کہ ان فرنٹ مینوں کو کسٹمز، ایف بی آر، ایف آئی اے سمیت دیگر مقامات پر پیش آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے بھی یہ بااثر افسران اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے۔

ذرائع کے مطابق اس مقصد کے لئے کئی ڈمی کمپنیاں قائم کی گئیں اور ساتھ ہی اعلیٰ حکام کے ذریعے ایسی پوسٹنگز لی جاتی رہیں جہاں رہ کر یہ افسران اپنی اور اپنے پیٹی بند بھائیوں کی خفیہ سرمایہ کاری اور منافع کے تحفظ کو یقینی بنا سکتے تھے۔ ذرائع کے مطابق حساس ادارے کی ٹیم نے اس معاملے پر تیزی سے معلومات جمع کرنا شروع کردی ہے تاکہ جرائم کے سہولت کار ان کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کے ساتھ ہی اربوں روپے مالیت کے اسمگلنگ، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے قومی خزانے کو مسلسل پہنچائے جانے والے نقصان کے سلسلے کو روکا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق جلد ہی اس حوالے سے ایک اہم رپورٹ سفارشات کے ساتھ اسلام آباد ارسال کی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے خصوصی توجہ ملک میں محصولات جمع کرنے کے مرکزی اور اہم ادارے ایف بی آر کے افسران پر دی جا رہی ہے جن میں ان لینڈ ریونیو سروسز اور کسٹمز ونگ کے کئی افسران مسلسل ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جہاں انہوں نے اسمگلروں ، ٹیکس چوروں کے ساتھ بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے علاوہ ری فنڈز کے معاملات میں اربوں روپے کے فائدے پہنچائے اور اس کے عوض کئی قسم کے کاروباروں میں شیئرز حاصل کرنے کے ساتھ بیرون ملک خصوصی طور پر دبئی ،کینیڈا ، امریکہ وغیرہ میں مالی مفادات حاصل کئے۔ اس پر اس لئے بھی فوکس کیا جا رہا ہے کہ ایف بی آر اور کسٹمزکے افسران کو ریٹائرمنٹ پر دیگر مراعات کے ساتھ ہی ایک امپورٹ یا ایکسپورٹ کمپنی رجسٹرڈ کرنے اور اس کی وی بوک آئی ڈی بنانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

حالیہ عرصہ میں ہی ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کسٹمز اور ایف بی آر افسران کو دیئے گئے ٹیکس کنسلٹنٹ اور کمپنیوں کے لائسنس اربوں روپے کے مالی فراڈز اور اسمگلنگ میں استعمال ہوئے۔ تاہم بعد ازاں ان پر تحقیقات کو روک دیا گیا کیونکہ ان میں کئی اعلیٰ افسران کے نام بھی پردہ نشینوں میں سامنے آرہے تھے۔

ذرائع کے بقول اس طرح کی خفیہ سرمایہ کاری کے لئے بیرون ملک حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھاری رقوم منتقل کی گئیں جو کرپشن سے کمائی گئی تھیں۔ اس سرمایہ کاری کو ہینڈل کرنے کے لئے کئی افسران نے اپنے خاندان کے افراد اور ملازمین کو بیرون ملک منتقل کیا اور ان کے ناموں پر پیسے جمع کرکے کاروبار کرتے رہے بعد ازاں ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ان ممالک میں پہنچ کر سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح سے ان سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک بڑی خفیہ سرمایہ کاری کئی افسران مختلف ٹرمینلز سے ہونے والی اربوں روپے کے سامان کی نیلامیوں میں بھی کرچکے ہیں۔ ایسے کئی بولی دہدندگان یعنی بڈرز سامنے آئے ہیں جن کے پاس ذاتی طورپر ہزاروں روپے کا سرمایہ بھی بمشکل موجود تھا تاہم ان کو کام آتا تھا۔ ایسے افراد کو کسٹمز افسران نے اپنے فرنٹ مینوں کے طور پر استعمال کیا اور کئی کئی افسران نے مل کر انہیں کروڑوں روپے فراہم کئے جس کے عوض انہوں نے نیلامیوں میں ستے داموں کروڑوں روپے کا سامان ان افسران کی مدد سے خریدا۔ جسے بعد ازاں مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرکے اس سرمایہ کاری پر دگنا منافع بٹورنے کے بعد اسے بیرون ملک منتقل کردیا گیا۔