عمران خان:
کراچی میں اسمگلروں کے سرپرستوں نے نیا نیٹ ورک بنا لیا۔ اسمگلروں کو نئے فرنٹ مینوں نے پیغامات پہنچانا شروع کر دیئے ہیں۔ ملک بھر میں خاص طور پر پنجاب کے حوالے سے اسمگلنگ کے نئے نیٹ ورک سامنے آنے پر جو رپورٹیں حکومت کو ارسال کی گئی ہیں، ان کی روشنی میں ان عناصر کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ تاہم اس صورتحال میں بھی بلوچستان سے کراچی ہونے والی اسمگلنگ کے حوالے سے ان رپورٹوں میں کوئی معلومات شامل نہیں کی گئیں۔ جس کی وجہ سے کراچی میں اسمگلرز کی سرپرستی کیلئے فعال گروپ تاحال احتسابی کارروائیوں سے بچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخر میں وزیراعظم آفس کو ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ محکمہ کسٹمز کے درجنوں افسران اور نجی عناصر پر مشتمل ایک منظم اسمگلنگ نیٹ ورک سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان قومی خزانے کو پہنچا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ نیٹ ورک قیمتی اشیا کی غیر قانونی درآمد و برآمد میں ملوث ہے۔ جس سے پاکستان کو سالانہ تین سے پانچ ارب ڈالر تک کی مالی نقصان پہنچ رہا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اس رپورٹ میں جہاں بلوچستان سے پنجاب تک ملتان ریجن کے راستے ہونے والی اسمگلنگ کے علاوہ گلگت بلتستان تک پھیلے ہوئے اسمگلرز کے سرپرستوں کو ان کے کوائف کے ساتھ بے نقاب کیا گیا ہے۔ وہیں کراچی کو نظر انداز کردیا گیا، جو اس وقت بھی ملک میں اسمگلنگ کے سامان کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
ذرائع کے بقول اس وقت کراچی کسٹمز انفورسمنٹ کے حوالے سے اسمگلنگ میں ملوث عناصر کیخلاف بھرپور کارروائیوں کے متعدد دعوے کیے جاچکے ہیں اور کئی کارروائیوں کا ریکارڈ بھی سامنے لایا گیا ہے۔ تاہم یومیہ بنیادوں پر کروڑوں روپے کے چلنے والے نیٹ ورک کے حوالے سے یہ کارروائیاں موثر کارکردگی ثابت کرنے کیلئے انتہائی ناکافی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل خراب کارکردگی اور متعدد انکوائریوں کی وجہ سے کسٹمز انفورسمنٹ کے جن افسران کو کوئٹہ اور اسلام آباد ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ان کو اب معاملات ٹھنڈے ہونے پر دوبارہ کراچی میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک افسر کو کسٹمز کے ویئر ہائوس کیلئے بلایا گیا ہے۔ تاکہ وہ گزشتہ عرصہ میں یہاں موجود اربوں روپے مالیت کے ضبط شدہ سامان میں ہونے والی تبدیلیوں کے معاملات کو اپنے انداز میں دباکر ملوث ماتحت اور اعلیٰ افسران کو بچا سکے۔
دستاویزات کے مطابق حالیہ رپورٹ وزیراعظم انسپکشن کمیشن (PMIC) نے وزیراعظم کی 22 فروری 2025ء کو دی گئی ہدایت پر مرتب کی۔ جو خفیہ اداروں سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔ رپورٹ کی تیاری کی نگرانی چیف کلیکٹر انفورسمنٹ باسط عباسی نے کی اور اسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے ذریعے وزیراعظم آفس بھیجا گیا۔ پورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک میں کل 78 افراد شامل ہیں۔ جن میں 37 سرکاری کسٹمز افسران اور 41 نجی عناصر ہیں۔ یہ نیٹ ورک پاکستان کی مختلف سرحدوں اور داخلی راستوں پر قیمتی سامان جیسے موبائل فونز، الیکٹرانکس اور دیگر پرتعیش اشیا کی غیر قانونی ترسیل میں ملوث پایا گیا ہے۔ تحقیقات میں سامنے آیا کہ یہ بدعنوانی صرف چند افراد تک محدود نہیں۔ بلکہ ایک پورا گٹھ جوڑ ہے جو برسوں سے فعال ہے۔
رپورٹ کے مطابق نہ صرف بدعنوانی بلکہ کسٹمز ڈیپارٹمنٹ میں نگرانی کے شدید فقدان، افسران کی غفلت اور جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھنے جیسے عوامل نے اس غیر قانونی تجارت کو بڑھاوا دیا ہے۔ پہلی کیٹیگری ان افسران کا ہے جو براہِ راست اسمگلنگ میں شریک رہے۔ ان کی تعداد 12 ہے۔ جن میں ایڈیشنل کلیکٹر افنان (پشاور)،اسسٹنٹ کلیکٹر اسامہ (اسلام آباد)، سپرنٹنڈنٹ مجتبیٰ (فیصل آباد)، انسپکٹر سکندر (ڈی جی خان) اور یو ڈی سی بکر (گلگت) شامل ہیں۔ بکر کو 210 سے زائد مہنگے موبائل فونز کے ساتھ رنگے ہاتھوں گرفتار بھی کیا گیا۔ دوسری کیٹیگری میں 16 افسران شامل ہیں۔ جنہوں نے اسمگلنگ کی کارروائیوں میں بالواسطہ تعاون کیا یا انہیں روکنے سے دانستہ گریز کیا۔ ان میں کلیکٹر سعود (ملتان) اور اسلام آباد و ملتان کے دیگر انسپکٹرز شامل ہیں۔
تیسری کیٹیگری ان افسران پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنے فرائض میں لاپرواہی برتی اور اسمگلنگ کی کارروائیاں ان کے دائرہ اختیار میں باآسانی ہوتی رہیں۔ اس فہرست میں کلیکٹر منزا مجید، ڈپٹی کلیکٹر مریم حق (ملتان) اور اسسٹنٹ کلیکٹر زغم شامل ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ان تمام افراد کے خلاف فوری تحقیقات، محکمانہ تادیبی کارروائی اور جہاں ضروری ہو وہاں قانونی چارہ جوئی عمل میں لائی جائے۔ مزید برآں، کسٹمز اور بارڈر کنٹرول سسٹم میں سخت اصلاحات، موثر نگرانی، اور ادارہ جاتی احتساب کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس نے رپورٹ موصول کر لی ہے اور اس میں موجود ناموں اور شواہد پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ سطح پر مشاورت کے بعد آئندہ چند روز میں ابتدائی تادیبی کارروائی شروع کیے جانے کا امکان ہے۔ معاشی ماہرین اور تاجر برادری نے اس انکشاف کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محکمہ کسٹمز میں برسوں سے جاری بد عنوانی کیخلاف سخت اور نتیجہ خیز کارروائی کرے۔ اگر یہ نیٹ ورک اسی طرح جاری رہا تو نہ صرف معیشت کو نقصان ہوگا۔ بلکہ قانونی تجارت اور سرمایہ کاری کا ماحول بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos