محمد قاسم :
خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی حکومت کے تعلیم عام کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ صوبے میں داخلہ مہم کی بری طرح ناکامی کے بعد اب جامعات میں طلبہ کا تعلیم چھوڑنے کا تناسب بھی 70 فیصد تک جا پہنچا ہے جس کی بڑی وجہ فنڈز مختص نہ کرنا اور فیصلہ سازی میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کو شراکت داری نہ دینا قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ اسلامی جمعیت طلبہ نے صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکثر جامعات مالی بحران کا شکار ہیں اور ان اداروں کے خسارے کا بوجھ طلبہ پر نہ ڈالا جائے۔
ذرائع کے مطابق صوبے میں 50 فیصد سے زائد بچوں کے اسکول سے باہر ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور اس دوران بتایا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف 12 اضلاع کے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ضلع کولئی پالس میں سب سے زیادہ یعنی 83 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے جس کے بعد لوئر اور اپر کوہستان میں یہ شرح 79 فیصد ہے۔ جبکہ شمالی وزیرستان میں 67 فیصد اور جنوبی وزیرستان میں 66 فیصد بچے تعلیم سے دور ہیں۔ اس صورتحال میں ضلع باجوڑ میں 63 فیصد، مہمند میں 62 فیصد، تورغر55 فیصد، کرم میں 54 فیصد، اورکزئی 53 فیصد، شانگلہ 52 فیصد اور ضلع خیبر میں 51 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔
تاہم اس کے بعد اب تعلیم کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق جامعات میں طلبہ کا تعلیم چھوڑنے کا تناسب 70فیصد تک جا پہنچا ہے جو صوبے میں تعلیم اور بچوں کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی پریشان کن ہے۔ کیونکہ انہی طلبہ نے آگے چل کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے اور اگر صورتحال یہی رہی تو صوبے میں تعلیم کا نظام بالکل بیٹھ جائے گا جو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ گزشتہ تین ادوار سے وہ صوبے میں برسر اقتدار ہے اور ایک مرتبہ وفاق میں بھی حکومت کر چکی ہے۔ لیکن مسلسل تیسری مرتبہ صوبائی حکومت ملنے اور داخلہ مہم کی ناکامی سمیت جامعات سے آنے والی اطلاعات پریشان کن ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) کے زیر اہتمام اعلیٰ تعلیم اور جامعات کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے تعلیمی جرگہ کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی حکومت، حزب اختلاف، سیاسی اکابرین، اعلیٰ تعلیم کے ماہرین، سول سوسائٹی، اساتذہ، طلبہ، دانشوروں اور والدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جرگہ میں دیگر جامعات کے اساتذہ اور ملازمین ایسوسی ایشن کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ شرکا نے صوبے میں با اختیار اور مالی طور پر مستحکم خیبر پختونخوا ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ناگزیر قرار دیا۔ پیوٹا رہنمائوں نے کہا کہ صوبائی حکومت مسائل کے حل اور روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جبری پالیسیوں کے تحت ڈراپ آئوٹ ریٹ 70 فیصد ہو چکا ہے اور فیسوں میں اضافے کی وجہ سے 8 سے 9 فیصد انرولمنٹ ریٹ رہ چکا ہے۔ پیوٹا کے مطابق جامعات کے ملازمین کو تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ جبکہ اس موقع پر یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ صوبائی بجٹ میں جامعات کیلئے مناسب فنڈز مختص کیا جائے اور طلبہ کے مسائل کے حل کیلئے فیصلہ سازی میں شراکت داری دی جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے آواز اٹھانی چاہیے۔
دوسری جانب اسلامی جمعیت طلبہ نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا جائے۔ اس حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کے صوبائی ناظم اسفندیار عزت ، صوبائی انچارج میڈیکل زون شہاب اقبال، ناظم خیبر میڈیکل کالج سید سلمان، پیما خیبرپختونخوا ایسوسی ایٹ انچارج ڈاکٹر عامر سہیل کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور ان کا ایک بڑا حصہ جی ڈی پی تعلیم پر خرچ ہوتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صوبے کی اکثر جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو تعلیمی ادارے خسارے کا بوجھ طلبہ پر ڈالنے پر مجبور ہوں گے جس کے نتیجے میں فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہو گا۔ اور متوسط طبقے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔
اسفندیار عزت نے ہائیر ایجوکیشن اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ جامعات کے لئے فوری طور پر گرانٹس جاری کریں تاکہ تعلیمی عمل متاثر نہ ہو۔ خیبر پختونخواہ میں اس وقت 49 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں جو گزشتہ سال کی نسبت 2 لاکھ زیادہ ہیں۔ جبکہ صوبے کی بڑی جامعات کے پاس فیکلٹی اور دیگر عملے کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی بجٹ موجود نہیں جس کے باعث اساتذہ اور ملازمین آئے روز کلاسز سے بائیکاٹ اور احتجاج پر مجبور ہیں۔ ان تمام معاملات کو حل کرنے کیلئے حکومت فوری طور پر اقدامات اٹھائے۔ تاکہ صوبے میں تعلیم کا معیار بلند ہو اور طلبہ کا مستقبل روشن رہے۔
اس حوالے سے صوبائی چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے میں ایسے بچوں کو جو ابتدائی و ثانوی تعلیم سے محروم ہیں، اسکولوں تک رسائی یقینی بنانے کے لئے حکمت عملی پر غور کیا گیا اور اس ضمن میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ ٹیم ابتدائی و ثانوی تعلیم، منصوبہ بندی و ترقیات اور محنت محکموں کے افسران پر مشتمل ہوگی جس میں یونیسف کے نمائندے بھی شامل ہوں گے اور یہ ٹیم ایک ماہ کے اندر تفصیلی لائحہ عمل اور پلان پیش کرے گی۔چیف سیکریٹری نے کہا کہ ابتدائی و ثانوی تعلیم سے محروم بچوں کا مسئلہ انتہائی اہم نوعیت کا حامل ہے جس کے حل کے لئے مربوط اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لئے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جن میں سرکاری محکمے، ڈونرز، والدین اور دیگر شراکت دار شامل ہیں کو اعتماد میں لیا جائے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos