راشد سلیم :
آم کی پیداوار کے حوالے سے سندھ کے شہرہ آفاق ضلع میرپور خاص کی مارکیٹیں آموں کی اعلیٰ اقسام سے سج چکی ہیں۔ میرپور خاص میں آموں کی فصل مئی کے وسط میں مارکیٹ میں آنا شروع ہوجاتی ہے اور اکتوبر کے آخر تک فروخت ہوتی ہے۔مقامی آموں کی 200 سے زائد اقسام ہیں۔ ان میں سے 20 اقسام کی کمرشل بنیادوں پر پیداوار کی جاتی ہے اور انہیں بیرون ممالک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر آم کی دو نسلیں ہوتی ہیں جن میں ایک قلمی اور دوسری کو دیسی یا تخمی کہا جاتا ہے۔ قلمی آموں کی مشہور اقسام میں بھورا سندھڑی، کالا سندھڑی، ثمر بہشت، سبز، دل آرام، ثریا، پونی، حبشی، دوسی، ولین، بادام، نیلم، چونسا، سرولی، بیگن پھلی، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شام سندر، سیاہ مائل، جبلپوری، جاگیردار، شہنشاہ، لال بادشاہ، الفانسو، گلاب خاص، زعفران، سوارنکای، لنگڑا، انوررٹول، دسہری، کلیکٹر، انمول اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ دیسی یا تخمی آموں میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری نمایاں ہیں۔ جب کہ سندھڑی آم اپنی خوشبو، ذائقے اور سائز کے باعث عوام کے دل پر حکمرانی کرتا ہے۔ اسے دنیا بھر میں بھی بہت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
سندھڑی آم کی میرپور خاص میں تاریخ ایک سو 19 سال سے بھی قدیم ہے۔ ضلع میں سندھڑی کی پیداوار 1905ء میں ہوئی جب ہندوستان کے شہر مدراس سے آم کے چار پودے تحفے کے طور پر میرپور خاص پہنچے، جن میں سے دو پودے سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے والد دین محمد جونیجو اور دو پودے کاچھیلو فارم کے معروف زمیندار عبدالصمد کاچھیلو نے اگائے۔ ان پودوں پر بعد ازاں سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تحقیق کرکے قلم لگائی گئی اور ان کا نام سندھڑی رکھا گیا۔سندھ کی آب و ہوا اور موسم کے باعث یہاں سندھڑی آموں کی پیداوار انتہائی کامیاب رہی۔ آموں کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر پانچواں بڑا ملک ہے۔
حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق آموں کی پیداوار حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بھارت ہے جہان سالانہ پیداوار 21 ملین ٹن ہے۔ جبکہ انڈونیشیا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سالانہ 3 اعشاریہ 6 ملین ٹن آم پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ تیسرا بڑا ملک چین ہے جہاں آموں کی سالانہ پیداوار 2 اعشاریہ 4 ملین ٹن ہے۔ چوتھے نمبر پر میکسیکو ہے جس کی سالانہ پیداوار 2 اعشاریہ ایک ملین ٹن ہے۔ پاکستان آموں کی پیداوار کے حساب سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں آموں کی پیداوار ایک اعشاریہ 8 ملین ٹن ہے۔ صوبہ سندھ سے دنیا کے 28 ملکوں میں ہزاروں ٹن آم ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ آم ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور برطانیہ جاتا ہے۔ بین الاقوامی آموں کی مارکیٹ میں سندھڑی آموں کی طلب دیگر آموں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ سندھڑی آموں کے تحفے ملک اور بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔
سندھ اور خاص طور پر میرپور خاص ڈویژن میں 2011ء میں آنے والے سیلاب اور طوفافی بارشوں کے علاوہ زرعی پانی کی قلت، بیماریوں اور محکمہ زراعت کے افسران کی عدم دلچسپی اور تحقیقی اداروں کی غفلت کے باعث گزشتہ کافی عرصے سے آموں کی کمرشل بنیادوں پر نئی اقسام متعارف نہ کرانے کے سبب ضلع بھر میں آموں کے باغات زوال پذیر ہیں۔ میرپورخاص میں 12ہزار ہیکٹر سے کم ہوکر اب ساڑھے گیارہ ہزار ہیکٹر پر آم کے باغات رہ گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنے باغات ختم کر کے ہائوسنگ اسیمیکیں بنا لیں اور باغات میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔
گزشتہ دوسال میں عالمی منڈیوں میں پاکستان اور خاص طور پر میرپورخاص کے سندھڑی آموں کی طلب بڑھنے اور ایکسپورٹ اور قیمتوں میں اضافہ ہونے پر کاشت کاروں نے ایک مرتبہ پھر سے اپنی زمینوں پر آموں کے باغات لگانا شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران آموں کے باغات میں لگنے والی بیماریوں سڈن ڈیتھ، آموں کے بور میں انٹریک نوز اور دیگر بیماریوں نے باغات میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔ ’’سڈن ڈیتھ‘‘ بیماری کا شکار درخت کچھ ہی عرصہ میں سوکھ جاتا ہے۔ اس بیماری کے باعث ہر سال فی ایکڑ پر چار سے پانچ آم کے درخت سوکھ رہے ہیں۔
زرعی ماہرین اس بیماری پر کنٹرول کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدا میں آموں کے باغات پر تھرپس کیڑوں نے حملہ کیا جس سے پھل پر داغ لگے اور پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں گرمی اور رات میں سردی ہونے سے بھی آموں کی فصل متاثر ہوئی ہے۔ سندھ میں زرعی پانی کی اکثر قلت رہتی ہے جس کے اثرات باغوں پر انتہائی منفی پڑتے ہیں اور آموں کی پیداوار اور سائز متاثر ہوتا۔ جبکہ پروسیسنگ زون گریڈنگ و پیکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث اور عالمی معیار کے مطابق نہ ہونے پر میرپورخاص کے آم اپنی پیداوار کے حساب سے بیرون ممالک ایکسپورٹ نہیں ہو رہے ہیں اور آباگاروں کو نقصان ہو رہا ہے۔ میرپور خاص ضلع سمیت سندھ بھر موجود آموں کے باغات کی دیکھ بھال اور آموں کی فروخت کا ٹھیکہ مختلف لوگوں کو دینے سے بھی آبادگاروں کو نقصان ہوتا ہے۔ جبکہ ٹھیکیدار اور مڈل مین، آبادگاروں کے مقابلے میں زیادہ منافع کماتے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ میں آموں کے باغات لاکھ روپے سے کروڑوں روہے میں ٹھیکے دیئے جاتے ہیں۔ تاہم حکومت کو چاہیئے کہ وہ میرپورخاص میں آموں کا پروسیسنگ زون قائم کر کے آبادگاروں کو جدید تقاضوں کے مطابق آگاہی فراہم کرے۔ تاکہ آبادگار عالمی معیار کے مطابق آموں کا معیار اور پیکنگ کر کے ملک کے لئے زر مبادلہ کما سکیں۔ حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر ساڑھے چار لاکھ ایکڑ رقبے پر آموں کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔
سندھ میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبے پر آموں کے باغات ہیں۔ جبکہ پنجاب میں تین لاکھ ایکڑ رقبے پر آموں کی کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان سے بیرون ممالک ایکسپورٹ کئے جانے والے آموں میں سندھ سے سندھڑی آم، جبکہ پنجاب سے چونسا آم بڑی مقدار میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ملک سے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن آم ایکسپورٹ کئے گئے جس میں سندھ کے 50 ہزار ٹن آم بھی شامل ہیں۔
ملک بھر میں آموں کی کل پیداوار 18 لاکھ ٹن ہوتی ہے۔ تاہم اس برس موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آم کی 6 لاکھ ٹن کم پیداوار کے باعث حکومت نے ایک لاکھ میٹرک ٹن آم ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں سندھ سے 30 ہزار ٹن آم شامل ہیں۔ آموں کی ایکسپورٹ سے 90 ملین زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ میرپور خاص ضلع میں ساڑھے گیارہ ہزار ہیکٹر رقبے پر آموں کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح گھوٹکی میں 290 ہیکٹرز، سکھر میں 190 ہیکٹرز، نوشہروفیروز میں 2500 ہیکٹرز، نواب شاہ میں تین ہزار ہیکٹرز، شکارپور میں 110ہیکٹرز، لاڑکانہ میں 170ہیکٹرز، عمرکوٹ میں 4 ہزار ہیکٹرز، سانگھڑ میں 850 ہیکٹرز، تھرپارکر میں 170 ہیکٹرز، دادو میں 100ہیکٹرز، جامشورو میں 232 ہیکٹرز، حیدر آباد میں 750 ہیکٹرز، مٹیاری میں4731 ہیکٹرز، ٹنڈوالہیار میں 10ہزار ہیکٹرز، ٹنڈو محمد خان میں 450 ہیکٹرز، ٹھٹھہ میں 200 ہیکٹرز اور کراچی میں 250 ہیکٹرز رقبے پر آموں کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔
سندھ کے آموں کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے کیلئے میرپورخاص میں ہر سال مینگو فیسٹیول منعقد کیا جا تا ہے۔ پہلی مرتبہ مینگو فیسٹیول 1965ء میں منعقد ہوا جس کا افتتاح گورنر ویسٹ پاکستان نواب آف کالاباغ امیر محمد خان نے کیا تھا۔ فیسٹیول میں آموں کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ مختلف فروٹس بھی نمائش کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ مینگو فیسٹیول انتظامیہ کی جانب سے عوام کی تفریح اور دلچسپی کے لئے مینا بازار، بچوں کے لئے جھولے، ملاکھڑا اور دیگر کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ آموں کے کاشت کاروں کو پیداوار بڑھانے اور جدید تحقیق سے آگاہی کے لئے زرعی سیمینار بھی پروگرام میں شامل ہوتا ہے، جس میں زرعی ماہرین جدید معلومات پر مبنی مقالے پڑھتے ہیں۔ 2001ء میں سابق گورنر سندھ محمد میاں سومرو نے مینگو فیسٹیول کو نیشنل مینگو فیسٹیول کا درجہ دیا اور 2005ء میں ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے فروٹ فارم میں آموں کی نمائش کے لئے ایئر کنڈیشنڈ ہال اور میرپورخاص میں مینگو پروسیسنگ زون قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مینگو فیسٹیول کے لئے ایئر کنڈیشنڈ ہال تو تعمیر کیا گیا، لیکن آبادگاروں کے فائدے کے لئے پروسیسنگ زون اب تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔
سندھ کے مختلف علاقوں سے آم کے کاشتکار تو فیسٹیول میں شرکت کرتے ہیں اور آموں اقسام بھی نمائش کے لئے رکھتے ہیں۔ لیکن انھیں اس فیسٹیول سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ کوئی غیر ملکی سفیر آتا ہے اور نہ ہی کسی بین الاقوامی ایکسپورٹر کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے آبادگار اپنی مدد آپ کے تحت آم ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ جبکہ زرعی سیمینار سے بھی آبادگاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے، جس کی وجہ سے سیمینار میں آبادگاروں کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ آباد گاروں کو آموں کی کاشت اور بیماریوں کے حوالے سے جدید معلومات اور آگاہی فراہم کی جائے اور آموں کو بیرون ممالک ایکسپورٹ کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
اس حوالے سے آم کے معروف کاشتکار و فارمرز آرگنائزیشن کونسل سندھ کے چیئرمین جاوید جونیجو نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پانی کی قلت، باغات میں لگنے والی بیماریوں اور زیر زمیں پانی کی سطح بلند ہونے سے آموں کے باغات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح کم کرنے کے لئے میں نے اپنے باغات میں ٹیوب ویل لگائے جس سے باغات پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میرا تمام آبادگاروں کو بھی مشورہ ہے کہ زیر زمیں پانی کی سطح کم کرنے کے لئے اپنے باغات میں ٹیوب ویل لگائیں۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے آموں پر مختلف قلم لگا کر آموں کی مختلف اقسام متعارف کرائی ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے چونسا اور سندھ سے سندھڑی آم دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کئے جاتے ہیں۔ تاہم موسمی تبدیلی اور فصل کی کمی کے باعث اس سال برآمدات میں کمی ہوئی ہے اور اس وقت ایران اور افغانستان براستہ روڈ آم ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سردیوں کے موسم میں آموں کے درختوں پر بوڈوی نامی بیماری حملہ کرتی ہے جس سے آموں کے باغات اور پیداوار شدید متاثر اور باغبانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سمجھدار آبادگار فوری طور پر بیماری پر کنٹرول کر کے اپنے باغوں کو سنبھال لیتے ہیں۔ اس وقت فصلوں کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے اور خصوصاً میرپورخاص میں پانی کا بحران رہتا ہے، جس سے آموں کی فصل اچھی نہیں ہوتی۔ انگریز دور حکومت میں باغات لگانے والوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، بلکہ باغو ں کے لئے خصوصی طور پر زیادہ پانی دیا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مینگو فیسٹول میرپورخاص کی روایت بن چکا ہے۔ پہلے فیسٹول میں غیر ملکی سفیر اور ایکسپورٹر آتے تھے۔ لیکن اب ایکسپورٹر، فارموں ہی سے آم خرید رہے ہیں۔ سندھ میں سب سے زیادہ آموں کی پیداوار میرپورخاص ضلع میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹنڈوالہیار، مٹیاری، نواب شاہ، ٹنڈو محمد خان میں بھی آموں کی بہترین فصل ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آموں کی زیادہ اور بہترین پیداوار حاصل کر نے کے لئے کاشتکاروں کو جدید طریقوں اور باغات کو بیماریوں سے بچاؤ کیلئے آگاہی فراہم کرنے کے لئے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کرے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos