عمران خان :
وزارت داخلہ کے ماتحت اہم اداروں کا قبلہ تاحال درست نہ ہوسکا۔ انسانی اسمگلنگ اور امیگریشن فراڈ کے نیٹ ورکس کی سہولت کاری کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ تازہ اسکینڈل میں جعلی پاکستانی قومی دستاویزات پر درجنوں افغان باشندے پاکستانی ایئر پورٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ معاملہ سامنے آنے کے بعد جب تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو کرپشن کے اس غار سے دم کے ساتھ پورا ہاتھی باہر نکل آیا۔ نیٹ ورک میں نادرا، پاسپورٹ آفس کے کرپٹ افسران کے ساتھ ان اداروں کے لئے کام کرنے والے ایجنٹ اور ٹریول کمپنیاں بھی ملوث نکلیں۔ جبکہ آخری مرحلے میں رہی سہی کسر ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکاروں نے سرپرستی کر کے پوری کردی۔
’’امت‘‘ کو موصول اطلاعات کے مطابق جعلی پاکستانی دستاویزات پر بیرون ملک فرار ہونے والے افغان باشندوں کے تازہ اسکینڈل میں ایف آئی اے نے اپنے اہلکار ملوث نکلنے پر کارروائی شروع کردی ہے۔ اب تک مقدمہ درج کرکے 6 ٹریول ایجنٹوں تک تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ جبکہ نادرا اور پاسپورٹ کے کرپٹ افسران کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے گوجرانوالہ نے ایک اہم پیش رفت میں اپنے ہی 10 افسران اور 6 نجی ٹریول ایجنٹس کے خلاف 40 سے زائد افغان شہریوں کو جعلی دستاویزات کے ذریعے بیرون ملک اسمگل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ان اہلکاروں کی تعیناتی سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر تھی، جس سے ادارے کے اندرونی نظام میں بد عنوانی اور سیکورٹی پر سنگین سوالات اٹھ گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحقیقات کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک افغان شہری، جو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے بیرون ملک روانہ ہوا تھا، واپسی پر رپورٹ نہ کر سکا۔ معاملے کی چھان بین کے لیے نادرا اور پاسپورٹ آفس سے اس شخص کی شناختی معلومات کی تصدیق کروائی گئی تو حیران کن انکشاف ہوا کہ متعلقہ افغان شہری کا کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں تھا۔ اس اسکینڈل میں جعلی پروٹیکٹر اسٹامپس اور جعلی دستاویزات بنوائے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے بقول تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ واقعہ انفرادی نوعیت کا نہیں، بلکہ اس جیسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ مجموعی طور پر 40 سے زائد افغان شہریوں کو جعلی دستاویزات، بشمول جعلی پروٹیکٹر اسٹامپس کے ذریعے بیرون ملک بھیجا گیا۔ پروٹیکٹر اسٹامپس، اوورسیز سفر کے لیے ایک لازمی کلیئرنس ہوتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ جعلی اسٹامپس لاہور، کراچی اور مالاکنڈ جیسے مختلف شہروں سے حاصل کی گئیں۔ ایف آئی اے نے ان شہروں کے پروٹیکٹر دفاتر سے رابطہ کرکے تصدیق کی، جنہوں نے واضح کیا کہ یہ تمام اسٹامپس جعلی ہیں اور ان کے دفاتر کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں۔ اب تک کی کارروائی میں جن ایف آئی اے کے ملوث افسران اور ایجنٹس کے نام اور کوائف منظر عام پر آئے ہیں، ان کے خلاف ایف آئی اے نے تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کرکے کئی ملزمان کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔
ان میں سب انسپکٹر اسد ضمیر، سب انسپکٹرسلمان لیاقت وڑائچ، سب انسپکٹرعمران شوکت وڑائچ، ہیڈ کانسٹیبل محمد شہزاد، ہیڈ کانسٹیبل محمد شہزادہ لطیف، ہیڈ کانسٹیبل فیاض احمد، ہیڈ کانسٹیبل محمد اویس، محمد نواز، ہیڈ کانسٹیبل صفدر علی اور اے ایس آئی ثاقب امیرشامل ہیں۔ جبکہ جبکہ گرفتار ٹریول ایجنٹس میں ظہور خان، صالح شاہ، اسلم گلفام، محمد دانش، خالد خان اور میخائل بنگش شامل ہیں۔ایف آئی اے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ان افراد کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور مزید گرفتاریاں و معطلیاں جلد متوقع ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’ایف آئی اے اپنے ادارے سے کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث کسی بھی فرد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ایئرپورٹ سپروائزر بھی تحقیقات کی زد میں میں آگئے ہیں۔ دوسری جانب سیالکوٹ ایئرپورٹ پر ڈیوٹی پر مامور امیگریشن سپروائزر کا کردار بھی مشکوک قرار دیا جا رہا ہے، جسے تحقیقات کے اگلے مرحلے میں شامل کیا جائے گا۔ اس بات کی بھی چھان بین کی جا رہی ہے کہ آیا یہ اسمگلنگ نیٹ ورک بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ گروہوں سے منسلک ہے یا نہیں۔
اب تک کی تحقیقات میں اس رخ پر تفتیش کی جا رہی ہے کہ افغان شہری جعلی پاکستانی دستاویزات کیسے حاصل کرتے رہے۔ مزید یہ کہ افغان شہریوں نے جعلی پاکستانی شناختی دستاویزات کس ذریعے سے حاصل کیں اور ان میں کون کون سے سرکاری یا نجی ادارے ملوث ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں جاری سیاسی اور سیکورٹی بحران کے باعث ہزاروں افغان شہری غیر قانونی راستوں سے دیگر ممالک جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس متحرک ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ کیس اس امر کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس، کس حد تک سرکاری نظام میں سرایت کر چکے ہیں۔ اعلیٰ حکام اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ اس کیس کی روشنی میں امیگریشن اور بارڈر کنٹرول کے نظام میں بڑی اصلاحات کی جائیں گی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2022ء میں بھی اسی نوعیت کا اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا، جب سعودی حکام نے پاکستانی دستاویزات پر سعودی عرب پہنچنے میں کامیاب ہونے والے غیر ملکیوں کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہارکیا تھا۔ اس ضمن میں سعودی حکام کی جانب سے پاکستانی حکام کو مراسلہ ارسال کیا گیا تھا۔ جس میں نشاندہی کی گئی کہ بڑی تعداد میں افغان شہری پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب کے ویزے حاصل کرکے جدہ پہنچ رہے ہیں۔ جس پر وزارت داخلہ کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو سخت ایکشن لینے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ جبکہ مذکورہ غیر ملکیوں کو پاکستان کے ایئر پورٹوں سے جعلی دستاویزات پر امیگریشن کلیئرنس دینے والے ایف آئی اے افسران، جعلی دستاویزات کی تیاری میں سہولت کاری دینے والے پاسپورٹ آفس اور نادرا اہلکاروںکے خلاف بھی سخت کارروائی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
اسی مراسلے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے زونل ڈائریکٹرز کو مزید ہدایات جاری کی گئی تھی کہ جعلی پاکستانی پاسپورٹ اور ویزوں پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے جانے والے غیر ملکیوں کی تعداد بتائی جائے۔ اس ضمن میں درج ہونے والے مقدمات اور ملوث ملزمان کے خلاف کی جانے والی تفتیش کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں تھیں۔ اور ساتھ ہی ایسے غیر ملکیوں کو ایئر پورٹس سے بیرون ملک جانے کے لئے امیگریشن کلیئرنس دینے والے ایف آئی اے افسران کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تفصیلات بھی مانگی گئیں۔ تاہم بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ اسکینڈل بھی دب گیا تھا اور کئی ملوث اہلکار دوبارہ سے ایئرپورٹوں پر تعیناتیاں لینے میں کامیاب ہوئے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos