فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب میں غنڈہ گردی روکنے کیلئے نیا مسودہ قانون تیار

نواز طاہر :

برطانوی راج میں ریاست مخالفین اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے متعارف کرائے جانے والے غنڈہ گردی کی روک تھام کے قانون میں پنجاب حکومت نے نئی ترمیم کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔ جس میں ماضی میں شامل نہ رہنے والے جرائم بھی اب اس نئے مسودہ قانون میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ جن میں سرکاری ملازمین کا بہروپ بدلنے والا بھی غنڈہ کہلائے گا اور سوشل میڈیا پر اسلحہ دکھانے والے پر بھی غنڈہ ایکٹ کا اطلاق ہوگا اور اس کا ملک سے فرار ہونے کا راستہ بھی مسدود کر دیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے غنڈہ گردی کی روک تھام کیلئے نیا مسودہ قانون تیار کرلیا گیا۔ یہ قانون منظوری کیلئے پہلے کابینہ اور بعد میں اسمبلی میں بھجوایا جائے گا۔ تاہم اسے آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں انیٹی ٹیررازم ایکٹ میں پہلے ہی ترمیم کی جا چکی ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کی جانے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سماج دشمن عناصر کو نکیل ڈالنے کیلئے ’’پنجاب کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ 2025‘‘ کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ جو غنڈوں کی شناخت، نگرانی اور روک تھام کیلئے جامع قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے۔مجوزہ قانون کے تحت امن عامہ اور معاشرتی فلاح کیلئے خطرہ بننے والے عناصر قانون کی گرفت میں آئیں گے۔

اس مجوزہ ایکٹ میں غنڈوں، بدمعاشوں کی قانونی شناخت واضح کی گئی ہے۔ غنڈہ ایسا شخص ہے، جو عادتاً بد نظمی، مجرمانہ سرگرمی یا سماج مخالف رویے میں ملوث ہو۔ امن عامہ کیلئے خطرہ اور عوامی پریشانی کا باعث بننے والا ہو۔ ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو غنڈہ قرار دینے کا اختیار ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کو دیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی پولیس، انتظامیہ اور حساس اداروں کی معتبر رپورٹ یا تحریری عوامی شکایت پر غنڈہ قرار دے سکتی ہے۔ منشیات فروشی، جوئے، بھتہ خوری، سائبر کرائم، ہراسانی میں ملوث شخص، منظم مجرمانہ سرگرمی، جعلی دستاویزات کے استعمال، سوشل میڈیا پر اسلحے کی نمائش اور سرکاری عہدیدار کا بہروپ بدلنے والا غنڈہ قرار دیا جائے گا۔

کسی شخص کو غنڈہ قرار دینے کے بعد ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی متعدد پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ غنڈہ قرار دینے کے بعد ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی مستقبل میں اچھے سلوک کی خاطر ضمانتی بانڈز بھروا سکتی ہے۔ غنڈے یا بدمعاش کو نو فلائی لسٹ میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جا سکتا ہے۔ ایسے شخص کے ڈیجیٹل آلات اور ڈیٹا کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔ غنڈے، بدمعاش کے بینک اکائونٹس منجمد اور اسلحہ لائسنس کینسل کیے جا سکتا ہے۔ اس کیلئے کمیونٹی سروس کے احکامات پر عمل درآمد لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسے حساس عوامی مقامات پر جانے سے روکا جا سکتا ہے۔

مجوزہ ایکٹ غنڈوں کی ٹیکنیکل سرویلنس کی اجازت دیتا ہے۔ غنڈوں کی نگرانی کیلئے ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور بائیو میٹرک ڈیٹا کلیکشن کی جا سکے گی۔ قانون کے مطابق متاثرہ شخص ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ڈویژنل، صوبائی یا اپیل کمیٹیوں میں نظر ثانی اپیل دائر کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں قائم ٹریبونل اپیل پر سماعت کرے گا۔

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے احکامات کی خلاف ورزی پر 3 سے 5 سال قید اور 15 لاکھ تک جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح جرم دہرانے والے مجرم کو 7 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہوگا۔ فوری اور بروقت انصاف کیلئے حکومت ضابطہ فوجداری کے تحت دفعہ 30 کے اختیارات کے ساتھ مجسٹریٹس نامزد کرے گی۔ ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے بتایا کہ مجوزہ قانون عوامی تحفظ کیلئے عادی مجرمان کی منفی سرگرمیوں کو موثر انداز میں روکے گا۔ یہ ایکٹ صوبہ بھر میں امن و امان کے قیام اور شہریوں کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔ جسے جلد منظوری کیلئے صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اس ایکٹ کے حوالے سے ماہر قانون عامر سہیل ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’غنڈہ گردی اور جرائم کی روک تھام کیلئے قانون بنانا اور اس پر عملدرآمد کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اہم ایشو یہ ہے کہ اس کا استعمال کیسے کیا جارہا ہے۔ بادی النظر میں اس قانون کے تحت مخالفین کو زد میں لیا جا سکتا ہے۔ اس کا راستہ روکنے کے لئے بھی مناسب اقدامات ضروری ہیں اور امکان ہے کہ قانون سازی کے مرحلے میں ان ایشوز کو دیکھا جائے گا‘‘