امت رپورٹ:
بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع بیکانیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کو تقریر کیے تین روز گزر چکے ہیں۔ تاہم اس موقع پر ماضی کے چائے فروش مودی نے جو سستے ڈائیلاگ بولے، وہ اب تک اس کی جان نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ گودی میڈیا کو چھوڑ کر بھارتی میڈیا کے قریباً تمام سینئر صحافیوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے مودی کی اس تقریر کو تین دہائیوں قبل بننے والی کسی سستی انڈین فلم کے گھٹیا اسکرپٹ سے تشبیہ دی ہے۔ واضح رہے کہ بیکانیر میں اپنی حالیہ تقریر میں شکست خوردہ مودی نے پاکستان کو حسب روایت کھوکھلی گیدڑ بھبھکیاں دیتے ہوئے کہا تھا ’’میری نسوں میں لہو کے بجائے گرم سندور بہہ رہا ہے‘‘۔ اس مضحکہ خیز ڈائیلاگ کو لے کر بھارت کے اپنے سوشل میڈیا ٹرولز مودی کی نام نہاد عزت کا فالودہ بنارہے ہیں۔
معروف بھارتی صحافی اشوک کمار پانڈے کے مطابق دنیا کے کسی وزیر اعظم کے پاس اس طرح کا خون نہیں جیسا مودی کے پاس ہے۔ شاید وہ دنیا کے واحد وزیراعظم ہیں، جن کا خون ہر ماہ بدل جاتا ہے۔ انتیس ستمبر دو ہزار چودہ میں مودی نے کہا ’’میں آزاد ہندوستان میں پیدا ہوا تھا اور میری رگوں میں جمہوریت دوڑتی ہے‘‘۔ پھر اسی برس مودی نے فاروق عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’سیکولرزم میرے خون میں بہتا ہے‘‘۔ دو ہزار چودہ ہی میں مودی نے کہا ’’ میں گجراتی ہوں اور بیوپار میرے خون میں بہتا ہے‘‘۔ یعنی ایک ہی برس کے دوران مودی کے خون میں کبھی جمہوریت دوڑی، کبھی بیوپار یا پیسہ اور کبھی سیکولرزم دوڑا اور اب اچانک سندور بہنے لگا ہے۔
مودی کی تقریر کو لے کر بھارتی سینئر صحافی اشوک وانکھیڑے کہتے ہیں ’’مزاحیہ انڈین فلموں میں ایک المیہ سین چل رہا ہوتا تھا، اس کے بیچ میں اچانک ایک کامیڈین آکر چٹکلہ چھوڑ دیتا تھا۔ چنانچہ اس موقع پر جب سب پہلگام کا سوگ منا رہے ہیں اور پاکستان کے بھرپور جواب پر پریشان ہیں، ایسے میں مودی کا بھاشن ماضی کے مزاحیہ اداکاروں جونی لیور اور محمود جیسا ہے۔ بیکانیر میں مودی کی تقریر سن کر میں اپنے اسکول کے زمانے میں چلا گیا۔ مجھے سلیم جاوید کی فلمی کہانیاں۔ جبکہ ’’خون بھری مانگ‘‘ جیسی فلمیں اور قادر خان کے ڈائیلاگ سب یاد آگئے۔ مودی اپنا خون بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ بھیگی بلی کی طرح انہوں نے جو سیز فائر کیا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ مودی کا خون پانی ہوچکا ہے‘‘۔
بھارتی تجزیہ نگار شیتل پی سنگھ کہتے ہیں ’’آپریشن سندور کے بعد مودی کی سیاست اور ساکھ کو جو دھچکا لگا ہے، اسے گودی میڈیا اور بی جے پی کی سوشل میڈیا ٹیم سنبھالنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن بات بن نہیں پا رہی۔ اسی لئے اب مودی کو ڈاکؤں والی پرانی فلموں جیسے ڈائیلاگ بولنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ تاہم اس کوشش میں وہ الٹا تماشا بن رہے ہیں۔ مودی کی عزت دھول میں میں مل گئی ہے۔ وہ کسی مسخرے سے کم دکھائی نہیں دے رہے۔ مودی کو کون عقل دے گا؟ وہ اپنے ملک میں تو اپنی ہنسی اڑوا رہے ہیں۔ لیکن بیرون ملک مقیم انڈین ان کے ان مزاحیہ ڈائیلاگ کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔
معروف بھارتی تاریخ داں اور کئی کتابوں کے مصنف شمس الاسلام کا کہناہے ’’لہو میں گرم سندور جیسے مزاحیہ ڈائیلاگ بولنے والے مودی کی ذہنی حالت پر ترس آتا ہے۔ آر ایس ایس کو چاہیے کہ وہ مودی کو تھوڑا ریسٹ کراکے کسی اچھے نفسیات داں سے ان کا ذہنی علاج کرائیں۔ ورنہ ہمارا وزیر اعظم آگے چل کر ملک کا بہت بڑا نقصان کرسکتا ہے‘‘۔
معروف بھارتی صحافی مکیش کمار کا کہنا ہے ’’مودی چاہے جلسوں اور ریلیوں میں کتنا ہی گرجتے برستے رہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک قدم آگے بڑھانے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔ اب پاکستان کو ہرانا مشکل ہی نہیں، ایک طرح سے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ مودی نے بیکانیر کے خطاب میں اناپ شناپ بکا۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے۔ جس طرح کے بھاشن مودی نے بیکانر میں جا کر دئیے، اس کا نہ سر تھا نہ پیر۔ ملک اس وقت ایک بحران میں ہے۔ یہ بحران صرف پاکستان کو لے کر ہی نہیں بلکہ امریکہ بھی ہمیں روز ڈانٹ رہا ہے۔ چین سے ہم بات نہیں کرنا چاہتے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے سات وفود مختلف ممالک میں بھیج رہا ہے، کیا یہ وفود دنیا کو جاکر کیا یہ بتائیں گے کہ ہمارا وزیر اعظم پاگلوں جیسی باتیں کر رہا ہے کہ اس کے خون میں سندور بہنے لگا ہے‘‘۔
بھارتی صحافی رام پرکاش رائے نے مودی کی حالیہ تقریر پر اپنے پروگرام میں کہا ’’ان پر ہنسی آتی ہے کہ اس شخص نے ملک کو کس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ آج پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ مودی کی تقریر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کامیڈی کا سستا شو چل رہا ہو۔ جس نے بھی مودی کو یہ مزاحیہ تقریر لکھ کر دی تھی، شاید اسے پتہ نہیں تھا کہ سندور میں پارہ ہوتا ہے اور اسے کھانے والے کو خون کی الٹیاں ہوتی ہیں۔ مودی جو سدا کا جاہل ہے، اس نے بھی بغیر سوچے سمجھے اپنی تقریر میں یہ ڈائیلاگ بول دیا کہ ’’میری نسوں میں خون کے بجائے گرم سندور بہہ رہا ہے‘‘۔
ایک بھارتی سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر سنجے کمار کے بقول مودی کی جانب سے اس طرح کی فلمی ڈائیلاگ بازی کا مقصد بہار کے الیکشن میں سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ بھارتی فلمی کہانیوں کو قریب سے جاننے والے ایک بھارتی شو بز صحافی دھنن جے کمار کہتے ہیں ’’سندور جیسے ڈائیلاگ اب پرانے ہوچکے ہیں۔ ’’سندور کی قسم‘‘ اور ’’سندور بھری مانگ‘‘ جیسی فلمیں بننا بند ہو چکی ہیں۔ کیونکہ اب بھارتی عورتوں کی اکثریت سندور نہیں لگاتی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ آگے کو چلنے کے بجائے پیچھے کو چلتی ہیں اور اسی لئے پاکستان کے خلاف مہم جو ئی کے لیے ’’آپریشن سندور‘‘ جیسا لفظ چنا گیا، جو اب بھارتی فلموں میں بھی نہیں ملتا۔ اسی کو مودی اپنی تقریروں میں استعمال کر رہے ہیں۔ آپریشن سندور نے مودی کے کپڑے اتار دئیے۔ اس سے ملک کو سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملا۔
راہول گاندھی نے بھی اس پر سوال اٹھایا ہے کہ کیمرے کے سامنے آپ کے خون میں سندور کھولتا ہے، لیکن جب ٹرمپ کو لے کر سوال کیا جائے تو یہ خون ٹھندا ہوجاتا ہے‘‘۔
مودی کے سندور والے ڈائیلاگ کو لے کر خود ان کے بھارتی ٹرولز بھی زبردست کمپین چلا رہے ہیں۔ مودی کے خلاف سوشل میڈیا پر بھارتیوں کے ہاتھوں بد ترین ٹرولنگ ہو رہی ہے اور مزاحیہ میمز بنائی جارہی ہیں۔ ایک صارف نے ٹرمپ اور مودی کی تصویر لگا کر یہ طنزیہ پوسٹ کی۔ جس میں ٹرمپ، مودی سے پوچھ رہے ہیں ’’ارے یار! تمہاری رگوں میں گرم سندور دوڑ رہا ہے اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں‘‘۔ ایک اور صارف نے شعلے فلم کے ایک سین کو لے کر دھرمیندر کی تصویر کے ساتھ ان کا مشہور ڈائیلاگ پوسٹ کیا، جس میں خون کی جگہ سندور کی ترمیم کرکے لکھا ’’کتے میں تیرا سندور پی جاؤں گا‘‘۔ پھر ایک اور صارف نے فلم ’’گینگ آف واسے پور‘‘ میں ماں کا رول ادا کرنے والی معروف اداکارہ رچا چڈا کا ڈائیلاگ، جو وہ اپنے چرسی بیٹے (نوازالدین صدیقی) کو غیرت دلانے کے لیے کہتی ہے، پوسٹ کیا ’’کب سندور کھولے گا رے تیرا‘‘۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos