تحریر: غلام حسین غازی
عصر حاضر میں یہ سوچنا بھی محال ہے کہ نظام تعلیم اور درس و تدریس کا قافلہ جب امتحانات کے فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ کر نقل کے اندھیروں میں گم ہو جائے تو قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ مگر وطن عزیز میں دیگر کئی شعبوں کی طرح ہمارا امتحانی نظام بھی طاقتور مافیاز کے نرغے میں زبوں حالی کا شکار ہے۔ امتحانی پرچے لیک ہونے اور ہال کے ہال بکنے والے قصے زبان زد عام ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پشاور بورڈ ہی نہیں سارا امتحانی نظام برسوں سے ایسی ہی زوال پذیری کا شکار ہے جہاں نقل صرف طالبعلم تک نہیں بلکہ پورا مافیا کروڑوں کے کاروبار کی صورت میں چلا رہا ہے۔ ایسے میں صوبائی حکومت قومی خرابی کا یہ درد محسوس کرکے سخت اقدامات کا فیصلہ کرے اور کوئی راندہ صفت شخص اس گندے نظام کو درست کرنے کا بیڑا اٹھائے تو صرف ذاتی مسائل ہی نہیں بلکہ خطرات بھی اس کے استقبال کو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ امتحانات ہی نہیں بلکہ ہر شعبے کا مافیا اتنا منظم، بااثر اور بے رحم ہوچکا ہے کہ جو بھی ان کے راستے میں حائل ہوا اس کی کردار کشی سے لے کر جانی نقصان تک کچھ بھی بعید نہیں۔ بلا شبہ اصلاحِ احوال کا سفر صرف ویژن یا اختیارات سے نہیں بلکہ بے پناہ جرات، مستقل مزاجی اور قربانی سے ممکن ہے۔
جب 25 مارچ 2025ء کو کمشنر پشاور ڈویژن ریاض احمد محسود کو چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کا اضافی قلمدان سونپا گیا تو انہوں نے اپنی افتاد طبع کے عین مطابق نہ صرف امتحانی نظام میں انقلابی اصلاحات تجویز کیں بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد کا آغاز کیا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سر پر تھے اسلئے کئی نام نہاد دانشوروں کا انہیں مشورہ تھا کہ موجودہ امتحانات کو نقل کے ساتھ مکمل ہونے دیں اور اگلے وقتوں کیلئے یہ اصلاحات نافذ کریں مگر ریاض محسود قوت فیصلہ سے سرشار اور دھن کے پکے ثابت ہوئے اور واضح کیا کہ اپنی نئی نسل اور مستقبل کے معماروں کا تھوڑا سا نقصان بھی قابل قبول نہیں اور پھر چرخ کہن کا دھارا ایسا پلٹا کہ آج میٹرک و انٹرمیڈیٹ امتحانات کے بخیر و خوبی اختتام پر والدین اور طلبہ و طالبات سمیت تمام سماجی و عوامی حلقے امتحانی شفافیت پر رطب اللسان اور خوش و مطمئن ہیں جبکہ امتحانی نظام کی تبدیلی کے خلاف شور و غوغا اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ درحقیقت انہوں نے تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں قائم امتحانی ہالوں کو انہی اداروں کی صوابدید پر رکھنے کی بجائے کلسٹر سسٹم متعارف کرایا جس کے تحت ایک ہال میں ایک ہی سکول و کالج کی بجائے مختلف تعلیمی اداروں کے طالبعلم امتحانات دینے لگے جو ایک دوسرے کیلئے بالکل اجنبی تھے اور ایسے ہی امتحانی عملہ بھی تھا۔ پھر بھلا ہال کیسے بک سکتے اور مافیا کیا کر سکتا۔

اگرچہ امتحانات سر پر تھے مگر ریاض محسود نے ہنگامی بنیادوں پر متعلقہ اداروں، نظام تعلیم اور امتحانات سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس بلائے اور نہ صرف امتحانی نظام کو مافیا سے آزاد کرانے بلکہ نگرانی، مانیٹرنگ اور امتحانی مراکز میں صحت و صفائی، روشنی، آبنوشی اور طبی سہولیات کے فول پروف انتظامات کئے۔ اس مقصد کیلئے تمام متعلقہ وفاقی و صوبائی محکموں اور اداروں کو واضح ذمہ داریاں تفویض کی گئیں جبکہ کمشنر پشاور بعد ازاں ان تمام اداروں اور سہولیات کا جائزہ لینے کیلئے شبانہ روز کوشاں رہے۔

صوبے بھر میں نقل کی موثر روک تھام کیلئے جو عمومی اقدامات کئے گئے وہ یہ کہ امتحانی مراکز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوئے جو متعلقہ بورڈز کے کنٹرول رومز کے ساتھ منسلک ہیں۔ امتحانی ہالوں کے احاطے میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تاکہ غیر متعلقہ افراد کی موجودگی کو روکا جا سکے۔ نقل کی روک تھام کیلئے پاکٹ گائیڈز کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی اور امتحانی ہالوں کے قریب فوٹو اسٹیٹ مشینیں بند کی گئیں۔ مگر ریاض محسود کے متذکرہ بالا اصلاحی اور انقلابی اقدامات کچھ دوسرے رنگ میں جلوہ گر ہوئے۔ دوسری خاصیت یہ کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے دونوں بورڈ امتحانات میں ایک بھی طالب علم کے خلاف یو ایف ایم کیس نہیں بنایا گیا جیسا کہ عمومی چلن ہوتا ہے کہ جہاں نقل کی شکایت ہو وہاں طلبہ و طالبات کے خلاف کیس بناؤ تاکہ بورڈز اور امتحانی ڈیوٹی پر مامور اساتذہ کی واہ واہ ہو مگر اب کی بار الٹی گنتی شروع ہوئی۔ زریاب کالونی پشاور میں نقل کی فراہمی میں ملوث سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دو ممتحنین کو ڈیوٹی سے فارغ کرکے تاحیات بورڈ ڈیوٹی کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔ عبرت کیلئے ایسے ہی ایک دو غلط کاروں کو سزا دینا کافی ہوتا ہے پھر نظام ازخود درستگی کا کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ طلبہ و طالبات کو امتحانات کے دوران پرسکون اور پرامن ماحول فراہم کیا گیا جس میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی، صاف پانی و ٹائلٹ، عمدہ فرنیچر اور طبی سہولیات شامل تھیں۔ طلبہ کو ہراساں کئے بغیر شفافیت اور نقل کی روک تھام یقینی بنائی گئی۔ نگران عملے کی تعیناتی بذریعہ قرعہ اندازی کی گئی اور ان کی مناسب تربیت بھی کی گئی تاکہ امتحانات میں شفافیت برقرار رکھی جا سکے۔ میٹرک امتحانات کے دوران طلبہ سے اضافی فیس وصول کرنے والے نجی اسکولوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اور زائد فیس واپس کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔

پھر ان تمام اقدامات کی کامیابی صرف کمشنر پشاور کی ذاتی کوششوں تک محدود نہ رہی بلکہ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ نے خود تمام بورڈز کو سختی سے ہدایت کی کہ امتحانات میں نقل اور بدانتظامی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ نتائج کی بنیاد پر تعلیمی اداروں کی کارکردگی جانچی جائے گی اور کسی بھی قسم کی کوتاہی پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ ہدایات تمام ڈویژنل کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور بورڈز کے چیئرمینز کو تحریری طور پر دی گئیں۔ دوسری طرف وزیر تعلیم فیصل ترکئی نے نہ صرف کمشنر پشاور کی کوششوں کو سراہا بلکہ انکے ہمراہ امتحانی عمل کا جائزہ بھی لیتے رہے نیز ان اصلاحات کو دیگر بورڈز تک وسعت دینے کا عندیہ بھی دیا تاکہ پورے صوبے میں ایک ہی معیار کے تحت شفاف امتحانات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں امتحانی نظام نقل اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے پاک ہوا۔ والدین، طلبہ، اساتذہ اور زندگی کے تمام شعبوں نے ان اقدامات کو سراہا۔ عوامی و سماجی حلقوں نے وفاقی و صوبائی حکومت سے کمشنر کی حوصلہ افزائی اور ستائش کیلئے ایوارڈ اور بھاری بھرکم انعامات کی سفارش بھی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ادارے جتنے بھی زوال پذیر ہوں، انہیں راتوں رات بدلنے والا جوہر قابل اب بھی موجود ہے۔
ہمارے اس پھولاں دے شہر پشور میں قحط الرجال نہیں ریاض محسود کجا ایک ڈاکٹر الیاس سید بھی موجود ہیں جنہوں نے عشروں پہلے پیراپلیجک سنٹر پشاور جیسے ڈوبتے ادارے کی باگ ڈور سنبھال کر اسکی کایا ہی پلٹ دی اور اس میں موجود کالج کے طلبہ و طالبات سے لیکر طبی و انتظامی عملے کی وہ کردار سازی کی کہ آج اس منفرد ادارے کا پورے جنوبی ایشیاء میں کوئی ثانی نہیں۔ یوں کمشنر پشاور ڈویژن کی قیادت میں بھی امتحانی نظام میں کی گئی اصلاحات نہ صرف پشاور بلکہ پورے ملک کیلئے ایک مثال بن چکی ہیں۔ ان کی جرات مندانہ قیادت، انتھک محنت اور عزم نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو اور مقصد عظیم، تو کوئی بھی نظام بدلا جا سکتا ہے۔ ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایسی نڈر اور بے لوث شخصیات کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈز سے نوازا جانا چاہئے تاکہ دیگر بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، ادارے مضبوط ہوں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos