فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل پر ایف آئی اے کا چھاپہ

عمران خان :

ایف آئی اے نے پی اے آر سی (پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل) پر چھاپہ مار کر ادارے میں کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کا ریکارڈ جلانے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے اور پولیس کی ٹیم کی جانب سے رات گئے پی اے آر سی ہیڈ آفس پر چھاپہ مارا گیا۔ کارروائی کے دوران چیئرمین پی اے آر سی کا آفس سیل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے میں ملک کے بحران سے نمٹنے میں ناکامی پر وزیر اعظم ہائوس نے تحقیقاتی رپورٹ ملنے کے بعد اہم زرعی تحقیقی اداروں کے سربراہان کو معطل کر دیا تھا۔ اسی دوران یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آئی تھیں کہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) میں بڑی مالی بد عنوانی ہوتی رہی ہے۔ جس میں زرعی تحقیق کے ادارے میں صرف گزشتہ پانچ ماہ میں قومی خزانے کو 2 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کا چونا لگایا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) میں مالی کرپشن، غیر قانونی بھرتیوں اور ریکارڈ جلانے کی اطلاعات پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پولیس نے رات گئے اسلام آباد میں واقع پی اے آر سی ہیڈکوارٹرز پر چھاپہ مار کر چیئرمین پی اے آر سی کا دفتر سیل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ معطل شدہ چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی ساتھیوں سمیت موقع سے فرار ہو گئے۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو اطلاع ملی تھی کہ پی اے آر سی (پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل) کے ہیڈ آفس میں کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کا ریکارڈ جلانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ جس پر رات 10 بجے کے قریب مشترکہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔ چھاپے کے وقت جبری رخصت پر بھیجے گئے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی اپنی ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔ مگر چھاپے کی اطلاع ملتے ہی وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ٹیم نے فوری طور پر چیئرمین آفس کو تحویل میں لے کر سیل کر دیا اور متعلقہ ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) میں گزشتہ پانچ ماہ کے دوران قومی خزانے کو 2 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ پی اے آر سی کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعدد منظور نظر افراد کو کیش ایوارڈز کے نام پر غیر قانونی ادائیگیاں کیں۔ جن میں سے بعض افراد کو ان کی سالانہ تنخواہ سے بھی زائد رقم دی گئی۔ یہ رقوم بغیر کسی باضابطہ منظوری کے، پی ایس ڈی پی اور اے ایل پی منصوبوں سے نکلوائی گئیں۔ صرف دسمبر 2024ء سے اپریل 2025ء کے دوران 11 مرتبہ کیش ایوارڈز کے چیک جاری کیے گئے۔ جن کی مجموعی مالیت 2 کروڑ 8 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے۔ مزید یہ کہ بورڈ آف گورنرز سے اس ضمن میں کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی تھی۔

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے قواعد کے مطابق اچھی کارکردگی پر کسی افسر کو کیش ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے بورڈ آف گورنرز سے منظوری لینا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن اس کیس میں نہ تو بی او جی سے منظوری لی گئی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا ہے کہ جس میں اچھی کارکردگی کا جواز بنا کر کیش ایوارڈ کی منظوری دی جائے۔ گزشتہ روز پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بھی یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے متعدد منصوبے برسوں سے التوا کا شکار ہیں اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں تاحال مکمل نہیں کیا جا سکا ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پی اے آر سی (پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل) میں کی جانے والی مالی بے ضابطگیوں اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے وزیر اعظم ہاؤس نے رواں برس اپریل میں ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی اور پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی) کے نائب صدر ڈاکٹر یوسف ظفر کو معطل کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ کپاس کی صنعت میں شدید زوال اور تحقیق کے فقدان کے تناظر میں کیا گیا۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2012-13 میں ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے کم ہوکر رواں مالی سال میں صرف 50 لاکھ گانٹھوں تک رہ گئی ہے۔ وزیر اعظم آفس کو موصول ہونے والی شکایات کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی میں نہ تو کپاس کی کوئی نئی تحقیق ہوئی اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا گیا۔

ذرائع کے مطابق اس ضمن میں آخری جھٹکا اس وقت لگا جب وزیر اعظم آفس کو معلوم ہوا کہ گزشتہ ایک دہائی سے کپاس پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے اور پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کو مبینہ طور پر کوئی کارروائی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں وزیر اعظم آفس کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کپاس کی نئی اقسام کی کمی کے بارے میں متعدد فوری شکایات موصول ہوئیں۔ جو ملک بھر میں فصلوں کو تباہ کرنے والا ایک اہم عنصر ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ زرعی برادری کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر وزارت فوڈ سیکورٹی نے بھی معاملے کی انکوائری تیز کر دی ہے اور پی اے آر سی کے چیئرمین کے قریبی ساتھیوں کو طلب کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی پی اے آر سی کے متعدد ترقیاتی منصوبوں کی تاخیر اور ناقص کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی مزید چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں اور چیئرمین کی گرفتاری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ریکارڈ کی بڑی تعداد پہلے ہی ضائع کی جا چکی ہے۔ تاہم چھاپے کے دوران حاصل کیے گئے شواہد پر فارنسک تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

دوسری جانب زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں، بلکہ قومی زرعی پالیسی اور تحقیقاتی ڈھانچے کی مجموعی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ زرعی ماہرین کا مطالبہ ہے کہ پی اے آر سی (پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل) اور پی سی سی کی تنظیم نو کی جائے اور تحقیقاتی نظام کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے۔