حکیم سید حسین محمود سہارن پوری ”الوداع”

حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری

[email protected]

بھائی بھائیاں دے درد ونڈاون’ بھائی بھائیاں دی باواں
باپ سراں دے تاج محمد’ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

کھڑی شریف آزاد کشمیر کے صوفی اور صاحب تصوف میاں محمد بخش نے درست فرمایا ” بھائی بازوبن کر ایک دوسرے کے درد’ تکلیف اور مصائب میں کمی کا سبب بنتے ہیں ایک دوسرے کا آسرا اور سہارہ بن کر غم کی ڈھال کا روپ ہوتے ہیں۔حکیم سید حسین محمود سہارنپوری زندگی کی 58 بہاریں دیکھ کر 26 مئی 2025ء کی شام اللہ کی جانب میں پیش ہوگئے، انہیں اگلے روز عید گاہ راولپنڈی کے قبرستان میں اپنے والدین’ خالہ اور ہمشیرہ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں آزاد کشمیر’ گلگت وبلتستان اور اسلام آباد سمیت ملک بھر سے محبان اور احباب نے شرکت کرکے 14 سالہ حافظ سید اسامہ بن حسین اور 12 سالہ عبدالرحمان بن حسین کے والد کو آخری سلام پیش کیا…بڑے بھائی 21مئی کو ٹریفک حادثہ کا شکار ہوئے انکی جدائی کو ہفتہ عشرہ گزر گیا ، یہ دن جس کرب اور الم کی جس کیفیت میں گزارے اس کا اندازہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ چودہ برس قبل ( 2012 میں) جب قبلہ وکعبہ والد گرامی حکیم سرورسہارنپوری دارالفناء سے دارالبقاء منتقل ہوئے تو ہم دونوں بھائی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوب روئے! آج والدین اور دونوں بڑے بھائیوں کی عدم موجود میں ہم تنہا رہ گئے۔ کوئی معرز اور غم گسارایسا کاندھا نہیں جس پر سر رکھ کر مصیبت اور وصل کی شدت کو کم کیا جاسکے۔یاد ش بخیر !! بھائی صاحب کو دو مواقع پر خوشی سے بھولے نہ سمائے دیکھا ۔ 2011جب حج سے واپسی ہوئی حکیم سید حسین محمود سہارنپوری بہت زیادہ مسرور نظر آتے ۔ ابو امی کو حرم شریف اور مسجد نبویۖ سے جڑی باتیں بہت زیادہ اشتیاق سے سناتے۔ کئی بار اللہ اوراس کے رسولۖ کی عنایات کااظہار کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آتیں، ایسے لمحوں میں جب انہیں والدین کا پیاراوردعائیںملتی تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا، شادمانی سے مرقع دوسرا لمحہ رواں برس 3 فروری 2025 کا تھا جب ان کے بڑے صاحب زادے (سید اسامہ بن حسین) کے سر حفظ قرآن کا تاج سجا۔ مدرسہ زینب راولپنڈی میں حفظ قرآن محتشم کی تقریب میں جیسے جیسے اسامہ کو حافظ کہہ کر پکارا جاتا ویسے ویسے حکیم صاحب انبساط ،فرحت اور خوشیوں کے دریا میں غرق ہوتے جاتے!! ایک بار ناشتہ کی نشست پر میرے سوال نے انہیں جھنجھوڑ دیا!! پوچھا بھائی زندگی سے کوئی گلہ ہے ؟ بہت غور سے دیکھا پھر گویا ہوئے” کوئی شکوہ اور شکائیت نہیں”!! البتہ عبدالرحمان اور اسامہ بن حسین کی والدہ کے وصال (جدائی) نے جو زخم دیا ہے وہ بھرنے کو نہیں آتا۔اڑھائی برس قبل اہلیہ نے زندگی کا منہ موڑا۔ دکھ صرف اس بات کا ہے کہ بچوں کا کیا بنے گا؟ یہی وہ عمر ہے جس میں بچے کو والدہ کی آغوش کی بہت زیادہ اور قدم قدم پر ضرورت ہوتی ہے۔ بحرحال اس خانوادے کا حصہ ہیں جو ہر دم اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں ۔
والدین کی رحلت کے بعد خاندان ‘ مطب اورجماعت سے منسلک زیادہ امور کا ”بوجھ” بھائی صاحب کے ذمے تھا۔حکیم حسین محمود سہارنپوری عیدالضحیٰ کے موقع پر اجتماعی قربانی کااہتمام کرتے۔ دس دن جانوروں کی دیکھ بھال اور خدمت میں شبانہ روز مصروف رہتے وہ جب بھی جماعت’ مطب اور خاندان سے متعلق بڑا فیصلہ کرتے تو آخری مشاورت کے لیے مجھے ضرور طلب کرتے یہ ان کا معمول مرتے دم تک رہا۔25 مئی کی صبح ہم دونوں بھائیوں نے ہمشیرہ کی قدم بوسی کے لیے ان کے گھر مہمان بننا تھا۔ بھائی صاحب مجھے تیار رہنے کا حکم دے کر غیر ارادی طور پر مطب چلے آئے جب ضرورت سے زیادہ وقت گزرا تو فون پر خیریت اور حالات کی جانکاری کی تو دوسری طرف سے ریسکیو 1122 کے اہلکار نے حادثہ’ ہولی فیملی اور آئی سی یو کی جان کن اطلاعات دے کر پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی!! اللہ پاک برادر اکبر کو جنت کے اس حسین ٹکڑے کا حقدار بنائے جو رسول اللہ ۖکے محبوبین کے لیے مختص ہے ۔ عید گاہ قبرستان کی جنازہ گاہ میں راولپنڈی کی معتبر او ر معمر دینی شخصیت سید چراغ الدین صاحب نے خطاب کرتے ہوئے درست کہا تھا نیک لوگوں کی محبت ”محبوب” کے پاس کھینچ لاتی ہے۔ حکیم حسین محمود کی چاہت کی دلیل ہے کہ وہ بیماری اور بستر علاج چھوڑ کر عید گاہ چلے آتے!! اللہ پاکحکیم سرو سہارنپوری کے صاحب زادے اور سید سعود ساحر کے بھتیجے کو کروٹ کروٹ فردوس بریں عطا کرے آمین