امت رپورٹ :
ایران کا زیادہ تر جوہری پروگرام اسرائیل کے حملوں کے بعد بھی محفوظ ہے۔ جمعہ کو علی الصبح اسرائیل نے حملے کے پہلے مرحلے میں نطنز میں ایران کی اہم جوہری افزودگی کی تنصیب کو نشانہ بنایا۔ تہران سے تقریباً ایک سو چالیس میل جنوب میں واقع یہ ایٹمی تنصیب یورینیم افزودگی کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ اور یہ اسرائیلی حملوں کا سب سے بڑا ہدف تھا۔ اس تنصیب کا ایک حصہ زیر زمین ہے۔ یہاں یورینیم کو اعلیٰ سطح تک افزودہ کرنے کے لئے جدید ترین ماڈلز سمیت متعدد جدید ترین سنیٹری فیوجز موجود ہیں۔
جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے کے بقول اس جوہری تنصیب میں تقریباً چودہ ہزار فعال سنیٹری فیوجز تھے، جب کہ مزید ہزاروں غیر فعال سنیٹری فیوجز بھی رکھے ہیں۔ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے میں نطنز تنصیب کا اوپر والا حصہ تباہ ہوگیا، جن میں تمام الیکٹریکل انفرااسٹرکچر اور ایمرجنسی پاور جنریٹر شامل ہیں۔ اور ساتھ ہی تنصیب کا وہ حصہ بھی متاثر ہوا ہے، جہاں یورینیم کو ساٹھ فیصد تک افزودہ کیا گیا تھا۔ تاہم تنصیب کی زمین کے اندر واقع سنیٹری فیوجز والا حصہ متاثر نہیں ہوا ہے۔
نطنز کی اس جوہری تنصیب کو پہلے بھی دوبار نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ قریباً پندرہ سال قبل اس تنصیب پر اسرائیل نے کمپیوٹر وائرس کے ذریعے حملہ کیا تھا، جب کہ دو ہزار اکیس میں اسرائیل نے اس تنصیب پر بم دھماکوں کے ذریعے تخریب کاری کی تھی۔ تاہم ہر بار ایران نے مرمت کرکے اسے دوبارہ فعال کرلیا۔
ایران کی سب سے محفوظ جوہری تنصیب فوردو ہے، جو قم شہر کے قریب واقع ہے۔ یہ ایک پہاڑ کے اندر تقریباً نصف میل گہرائی میں بنائی گئی ہے تاکہ اسے بمباری سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اسرائیل نے حالیہ حملوں میں اسے بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی، لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی۔ کیونکہ اسے تباہ کرنے کے لئے عام بموں کے بجائے بہت بڑے ’’بنکر شکن‘‘ بموں کے بار بار استعمال کی ضرورت ہے۔
زیادہ تر دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اس تنصیب کو نقصان پہنچانے کا کام اسرائیل، امریکی مدد کے بغیر نہیں کرسکتا۔ فوردو کی ایٹمی تنصیب پہلی بار دو ہزار نو میں منظر عام پر آئی تھی، اس سے قبل اسے خفیہ طور پر چلایا جاتا رہا تھا۔ اس تنصیب میں ایران کے جدید ترین سنیٹری فیوجز ہیں اور اسے ایران کے لئے ساٹھ فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کے لئے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ نوّے فیصد سے زائد یورینیم افزودگی ایٹم بم بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تنصیب میں تقریباً تین ہزار جدید ترین سنیٹری فیوجز ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کا زیادہ تر جوہری پروگرام اسرائیلی حملوں کے بعد بھی باقی ہے۔ جب کہ حملے کے پہلے مرحلے میں اصفہان میں جوہری ایندھن کے اس بڑے ذخیرے کو نشانہ نہیں بنایا گیا، جو ایٹم بم بنانے کے قریب ترین درجے میں سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جمعہ کی صبح شروع ہونے والے حملوں میں اسرائیل نے ایران کی کئی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، تاہم حملے کے بعد جب سورج طلوع ہوا تو یہ بھی واضح ہوگیا کہ ایران کا زیادہ تر جوہری پروگرام باقی ہے۔
خاص طور پر ایٹم بم بنانے کی قریب ترین صلاحیت رکھنے والے جوہری ایندھن کے ذخیرے کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو۔ اصفہان میں یہ ذخیرہ ایک وسیع کمپلیکس میں رکھا گیا ہے۔ اس ذخیرے کی نگرانی پر مامور بین الاقوامی معائنہ کاروں کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیارے، میزائل اور ڈرونز اس ذخیرے سے دور رہے، جو ایران کے سب سے بڑے جوہری مقامات میں سے ایک ہے۔
مغربی انٹیلی جنس سروسز کے دعویٰ کے مطابق یہ ایران کے خفیہ ہتھیاروں کے تحقیقی پروگراموں کے مراکز میں سے ایک ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج نے خبر جاری کی تھی کہ حملے کے دوسرے مرحلے میں اصفہان کی اس تنصیب کو نشانہ بنایا گیا، لیکن جوہری ایندھن کے ذخیرے کو نہیں۔ اس کے بجائے ان لیبارٹریوں کو تباہ کیا گیا، جو یورینیم گیس کو دوبارہ دھات میں تبدیل کرنے کا کام کرتی ہیں۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کہتے ہیں ’’ہم نے حال ہی میں ایک معائنے کے دوران جوہری ایندھن کے اس ذخیرے کو دیکھا تھا۔ توانائی ایجنسی کے انسپکٹرز گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اصفہان کی اس سائٹ کے اندر موجود تھے۔ تاکہ ایران کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں سہ ماہی رپورٹ مرتب کی جاسکے۔ بعد ازاں یہ رپورٹ ایجنسی کے بورڈ کو تقسیم کی گئی تھی۔‘‘
امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پراسرار بات ہے کہ اسرائیل نے اصفہان میں جوہری ایندھن کے ذخیرے کو نشانہ بنانے سے کیوں گریز کیا؟ جو ایران کو چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا تیز ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔ رابطہ کرنے پر اسرائیلی حکام نے بھی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ انہوں نے ذخیرے کو کیوں نظر انداز کیا۔ ممکن ہے کہ حملوں کے اگلے مرحلے میں اصفہان کمپلیکس کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ لیکن بیرونی ماہرین کا خیال ہے کہ اصفہان میں جوہری ایندھن کو نشانہ بنانے سے گریز ایک دانستہ فیصلہ تھا۔
ایران کی جوہری پیش رفت کو قریب سے دیکھنے والی فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس سے وابستہ جون وولفسٹل کہتی ہیں ’’اس سے لگتا ہے کہ یا تو نیتن یاہو کو خدشہ تھا کہ جوہری ایندھن کے ذخیرے پر بمباری سے کوئی ریڈیولوجیکل واقعہ ہوسکتا ہے، یا ان کی سوچ ہے کہ ایران اپنے اس ذخیرے کو رضاکارانہ طور پر حوالے کردے گا۔‘‘ ایک اور ممکنہ دلیل یہ ہے کہ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ وہ ایرانیوں کو ذخیرے کو مزید افزودہ کرنے سے روک سکتے ہیں۔ اگرچہ ایندھن کے ذخیرے پر بمباری کرنے سے جوہری دھماکہ نہیں ہوگا، لیکن اس کے نتیجے میں تابکاری کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل تابکار مواد کے اخراج کو متحرک کرنے کے خطرے کے حوالے سے انتہائی محتاط ہے۔ جب اسرائیل نے انیس سو اکیاسی میں صدام حسین کے اوسیرک ایٹمی ری ایکٹر پر بمباری کی تھی تو یہ یقینی بنایا تھا کہ پلانٹ میں جوہری ایندھن موجود نہ ہو۔ اسی طرح شام میں ایک جوہری پلانٹ کو نشانہ بنانے سے پہلے بھی یہی احتیاط برتی گئی تھی۔
ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے ترجمان بہروز کمال وندی نے بتایا تھا کہ اسرائیل کے میزائل حملے کے بعد وسطی اصفہان میں واقع ایران کی سب سے بڑی جوہری سائٹ نطنز میں جوہری آلودگی پائی گئی۔ کمال وندی کے بقول تنصیب کے اندر کچھ آلودگی کا پتا چلا لیکن یہ آلودگی تنصیب سے باہر نہیں پھیلی۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات ملک بھر میں واقع ہیں۔ ان میں یورینیم افزودگی کے دو مراکز نطنز اور فوردو ہیں۔ جبکہ اراک اور اصفہان میں تحقیقی مراکز ہیں۔ اسی طرح زیر تعمیر پلانٹس اور ایٹمی بجلی گھروں میں کرج، درخویں، بوشہر، سرگند، انارک اور سرک اہم ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos