فوٹو سوشل میڈیا
فوٹو سوشل میڈیا

ڈوبنے والے کئی پاکستانی یونان میں زندہ

نواز طاہر:

یونان کشی حادثے میں ڈوب کر لاپتا ہونے والے لگ بھگ سو پاکستانیوں کو مردہ تصور کرلیا گیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے کئی لاپتا پاکستانیوں نے وطن میں اپنے عزیزوں سے ٹیلی فونک رابطے کیے ہیں۔

ان کے لواحقین کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی وزارتِ خارجہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے پیاروں کی موجودگی کے مقام کی تلاش اور ان کی واپسی کیلئے اقدامات میں کوئی دلچسپی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔ جبکہ وہ مسلسل احتجاج کررہے ہیں جو ان کی وطن واپسی تک جاری رہے گا۔ تاہم آزاد ذرائع سے ان افراد کی ’’موجودگی‘‘ کے ٹھوس شواہد نہیں مل رہے۔ جبکہ حادثے کے وقت ان افراد کو بچانے میں دلچسی نے نہ لینے والے یونانی اہلکاروں کے خلاف وہاں کے نظام انصاف کے تحت انکوائری شروع ہو چکی ہے۔ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے بارہ افراد کو قانونی طور پر یونان میں رہنے کی اجازت بھی مل چکی ہے، البتہ کچھ انسانی اسمگلر گرفتار اور کچھ فرار و بیرون ملک مقیم بتائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تین سو سے زائد افراد افراد نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، یونان کشتی حادثے کے دو سال مکمل ہونے پر دو روز قبل لاہور میں مظاہرہ کیا جس میں کشتی حادثے میں ڈوبنے کے بعد لاپتا ہونے والوں میں سے کچھ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ افراد زندہ ہیں اور پاکستان میں اپنے والدین، بہن بھائیوں سے ٹیلی فون پر اپنے کرکے اپنے زندہ ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں اور ساتھ ہی مشکل ترین حالات کا شکار ہونے کے بارے میں بھی بتارہے ہیں۔

یاد رہے کہ غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں چودہ جون دو ہزار تئیس کوتبروک ( لیبیا ) سے چلنے والی کشتی ڈوب گئی تھی جس میں گنجائش کے مطابق چار سوافراد کے بجائے خواتین اور بچوں سمیت ساڑھے سات سوافراد کو سوار کیا گیا تھا۔ یہ کشتی یونان کی حدود میں پورٹ پولی کے مقام پر ڈوب گئی تھی۔

ریسیکیو کارروائی کے دوران بیاسی افراد کی لاشیں نکالی گئیں اور ایک سو چار افراد کو بچالیا گیا تھا جبکہ پانچ سو افراد کو مردہ تصور کرلیا گیا تھا۔ ان میں سے بارہ افراد کی لاشیں پاکستان پہنچی تھیں۔ بارہ افراد زندہ بچ جانے کی تصدیق ہوئی، جبکہ ایک سو سے زائد پاکستانیوں کے اس کشتی میں سوار ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ جن افراد کو مردہ تصور کیا گیا تھا، ان کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اب انہیں یہی لاپتا افراد ٹیلی فون پر اپنے زندہ ہونے کی اطلاعات دے رہے ہیں اور ان کے زندہ ہونے کے ثبوت میں اس حادثے کے بعد کی کچھ تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں۔

ان میں سے تین افراد کی مائوں صبا ڈار ، پروین ، رضوانہ اور ایک شخص کے بھائی عمر اصغر کا کہنا ہے کہ جو لاپتا تھے ان کی نہ تو لاشیں دی گئیں ، نہ ہی بتایا گیا کہ انہیں جیل میں رکھا گیا ہے اور نہ ہی اس واقعے کے بارے میں بنائی گئی فوٹیج شیئر کی گئی۔ یونان حکومت قطعی طور پر تعاون نہیں کر رہی۔ دوسری جانب انہیں ایسی تصاویر ملی ہیں جو اس حادثے کے بعد کی ہیں۔ جبکہ جنہیں مردہ قرار دیا گیا ہے اور ان کے لواحقین انہیں پہچانتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عید کے موقع پر بھی انہیں کالیں موصول ہوئیں۔ کچھ لاپتا قرار دیئے افراد کا کہنا تھا کہ وہ بڑی مشکلات میں ہیں۔

انہیں معلوم نہیں کہ کہاں رکھا گیا ہے۔ کچھ کے لواحقین کے کا خیال ہے کہ انہیں ترکی کی کسی جیل میں رکھا گیا ہے۔ کچھ نے اپنے والدین کو فون کیا۔ ’’ہیلو’’ کہا اورفون بند کر دیا۔ اسی طرح چند نامعلوم افراد نے بھی کالیں کیں اور معاونت کی پیشکش کی۔ کال کرنے والے ایک شخص نے اپنا وزٹنگ کارڈ بھی ویٹس ایپ پر شیئرکیا اور کچھ خواتین نے بھی رابطے کیے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف سے اپیل کررہے ہیں کہ ہماری مدد کریں۔ کشتی حادثے کے متاثرین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جن نمبروں سے ٹیلی فون کال آتی ہے جب ان پر جوابی کال کی جاتی ہے تو وہ اٹینڈ نہیں ہوتی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ترکی سمیت مختلف ممالک میں ایسے متحرک گروپوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں جو سیاحوں ، تارکینِ وطن اور غیرقانونی تارکینِ وطن کو اغوا کرکے یا ان کی گمشدگی کی صورت میں ان کے لواحقین سے بھتے وصول کرتے ہیں۔ ان متاثرہ خاندانوں میں سے ایک عمر اسلم نے بتایا کہ یونان میں پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والی جاوید اسلم آرائیں ان ڈوبنے والوں کا کیس عدالت میں چلا رہے ہیں اور بہت سے حقائق سے واقف بھی ہوسکتے ہیں۔

جب ’’امت‘‘ نے یونان میں جاوید اسلم آرائیں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’’ہمارے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں جس کی بنیاد پر کہہ سکیں کہ کتنے لوگ زندہ ہیں۔ البتہ ڈوبنے سے بچ جانے والے چھ خوش نصیب افراد کوجانتے ہیں جن کی ہم نے یونان میں قانونی جنگ لڑی اور انہیں یونان میں قیام کی قانونی طور پر اجازت مل گئی ہے۔ اور اب وہ افراد یونان میں برسر روزگار ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ بادی النظر میں ہوسکتا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کوئی چیت کررہا ہو۔ لیکن یہ مبہم صورتحال ہے۔ اگر کوئی کال کر سکتا ہے تو ویڈیو کال بھی کرسکتا ہے۔ وہ صرف ہیلو کہہ کر فون بند کیوں کرے گا؟‘‘