نواز طاہر:
پنجاب میں غنڈہ ایکٹ نافذ کرنے کیلئے مسودے کی تیاری کے ساتھ ہی اس پر تحفظات سامنے آنے کے باعث یہ معاملہ موخر ہوگیا ہے۔ لیکن صوبے میں غنڈہ گردی اور بدمعاشی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جن کی سوشل میڈیا پر فوٹیج وائرل ہورہی ہیں۔
ایسی ہی ایک فوٹیج وزیراعلیٰ پنجاب کی رہائش گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر رائیونڈ سے سامنے آئی ہے جہان غنڈوں نے دکان کے اندر گھس کر دکاندار کے ساتھ غنڈہ گردی کی بلکہ اس کی مدد کیلئے آنے والوں بھی لپیٹ میں لے لیا جس سے کسی کے دانت ٹوٹ گئے اور کسی کی ناک توڑی دی گئی۔ یہ فوٹیج رائیونڈ بازر سے شیئر کی گئی تھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ چار پانچ افراد ایک دکان میں داخل ہوتے ہیں اور دکاندار پر تشدد کرتے ہیں۔ تشدد کا یہ واقعہ اس بازار کی نصف صدی قدیم دکان ’بھولے دی ہٹی‘ پر پیش آیا۔
اس واقعے کے اگلے روز پولیس نے مقدمہ درج کرلیا۔ تاہم ملزموں کی گرفتاری کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی جبکہ ملزموں کے بارے میں متایا گیا ہے کہ وہ ایسے واقعات کے عادی ہیں اور اب صلح کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں۔ جبکہ ایک دکاندار اٹھارہ جون بدھ کی سہ پہر تک لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج تھا۔
دکان کے مالک ریئس احمد کی طرف سے درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ دو افراد نے زنانہ سوٹ خریدا اور کچھ دیر کے بعد واپس آکر یہ سوٹ واپس کرنے کا مطالبہ کیا جس سے تلخ کلامی ہوئی اور جھگڑا شروع ہوگیا جس کے ساتھ ہی انہوں نے چار پانچ مزید افراد کو بلوا لیا جنہوں نے دکاندار ریئس کے بیٹے حسنین ، بھائی ابرار اور سیلز مین محسن، ساتھی دکاندار فیاض حفیظ پر آہنی کڑوں اور آہنی مکوں سے تشدد شروع کردیا جس کے نتیجے میں ایک دکاندار کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی اور دوسرے کے دانت ٹوٹ گئے اور ایک نے آہنی پنچ مار کر محسن کا سر پھوڑ دیا اور دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہوگئے۔
سہ پہر کے وقت بھرے بازار میں اس غنڈہ گردی پر پولیس کو مطلع کیا گیا۔ لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی بلکہ اس کی فوٹیج وائرل ہونے کے بعد لڑائی جھگڑے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے الزامات کے تحت مقودمہ درج کرلیا۔ جبکہ یہ سطور لکھے جانے تک کسی ملزم کو گرفتارنہیں کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بارے میں ’بھولے دی ہٹی‘ کے مالک ریئس رحمد نے بتایا کہ ’’میں اتفاق سے واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔ اس غنڈہ گردی سے ہماری دکن اداری بھی متاثر ہوئی ہے اور خاندانی وقار بھی متاثر ہوا ہے۔ جبکہ یہ پرانی دکان علاقے میں کاص طور پر خواتین کے حوالے سے وقار کی علامت کہلاتی ہے۔‘‘
ریئس احمد نے بتایا کہ ایک ملزم اپنی بیوی کے ساتھ سوٹ خریدنے کیلئے آیا جس نے کئی سوٹ پرکھنے کے بعد ایک سوٹ خریدا۔ اس دوران انہیں آگاہ کیا گیا کہ خریدا ہوا سوٹ واپس نہیں ہوسکتا، البتہ اس کا رنگ تبدیل کیا جاسکتا ہے یا متبادل سوٹ فراہم کیا جاسکتا۔ خاتون نے اپنی پسند کا سوٹ خریدا اور وہ لوگ چلے گئے لیکن کچھ ہی دیر کے بعد خاتون کے بغیر وہ خریدار سوٹ واپس کرنے آگیا اور زبردستی سوٹ واپس کرنا چاہا۔ ساتھ ہی غلیط گالی گلوچ بھی کی۔ سوٹ واپس کرنے سے انکار پر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ساتھیوں سمیت آیا اور حملہ کردیا۔
جب ساتھ والا دکاندار چھڑانے کیلئے آیا تو اس پر بھی تشدد کیا گیا اور حملہ آوروںنے چاروں افراد کو خونم خون کردیا اور گالیان بکتے، دھمکیاںدیتے فرار ہوگئے۔ ان میں سے حملہ آوروں کے ایک ساتھی کی شناخت ہوسکی جس سے مزید پتہ چلا ہے کہ یہ غنڈہ عناصر ہیں اور جرائم پیشہ ہیں ، کچھ جیب تراش بھی ہیں اور شاہرائوں پر بھی لوٹ مار کرتے ہیں۔
ریئس احمد نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد صرف دو پولیس اہلکار ان کے پاس آئے تھے جنہیں سی سی ٹی وی کی فوٹیج دکھائی گئی ہے ابھی تک پولیس نے کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا۔ اس گروہ کی پشت پناہی کرنے والوں کے بارے میں سوال پر ریئس احمد نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد سابق یونین کونسل الیاس سندھو نے ٹیلی فون پر کہا ہے کہ اس معاملہ کو رفع دفعہ کردیا جائے۔ جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ زخمی فیاض عرف حفیط بدھ کی سہ پہر تک لاہورکے سروسز اسپتال میں زیر علاج تھا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ایسی ہی نوعیت کا ایک واقعہ چند روز قبل لاہور میںشیخوپورہ روڈ پر بیگم کوٹکے علاقے میں بھی پیش آیا جہاں نوجوان کو چھریاں ماری گئیں۔ تاہم پولیس چوکی بیگم کوٹ کے اہلکاروں نے نے ون فائیو کی کال پر فوری کارروائی کرتے ہوئے حملہ آور زبیرکو گرفتار کرلیا۔ جبکہ زخمی کو اسپتال منتقل کردیا گیاہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے گذشتہ ماہ غنڈہ ایکٹ میں ترمیم کے لئے ایک مسودہ قانون تیار کرکے منظوری کے لئے کابینہ کو ارسال کیا تھا۔
اس مجوزہ قانون کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس کا مقصد ایسے واقعات کی روک تھام تھا ہے جس سے معاشرے میں دہشت پھیلانے، جبری قبضے کرنے اور انار کی پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ لیکن اس مسودے کے بارے میں میڈیا میں خبرین شائع ہوتے ہی مختلف اطراف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے تاحال معرضِ التوا میںرکھا گیا ہے۔
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی صورتحال واضح کررہی ہے کہ یہ واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں معاشرے میں ہٹ دھرمی ، دھونس اور بدمعاشی سے انارکی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ قانون میں مزید سخت سزائیںتجویز کرنے اور ان پر عملدرآمد سے روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos