عمران خان :
انفورسمنٹ کلکٹریٹ کسٹمز (اے ایس او) کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں مسلسل تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہیں۔ کسٹمز انٹیلی جنس کے شعبے کو بھی انسداد اسمگلنگ کے حوالے سے غیر فعال کردیا گیا۔ تاہم یہ اقدام کرنے سے پہلے اورکسٹمز انفورسمنٹ کو انسداد اسمگلنگ کے کلی اختیارات دینے سے پہلے اس کی انسداد اسمگلنگ کے خلاف استعداد اور دائرہ کار بڑھانے کے لئے کسی قسم کی ریفارمز نہیں کی گئیں۔ جس کے نتائج اب اس صورت میں سامنے آنے لگے ہیں کہ حساس اداروں کو ہی اسمگلروں کے حوالے سے خفیہ معلومات فراہم کرنی پڑ رہی ہیں، جن پر کسٹمز انفورسمنٹ کی ٹیمیں کارروائیاں کرکے اپنی کارکردگی ظاہر کررہی ہیں۔ جبکہ کسٹمز انفورسمنٹ کا اپنا انفارمیشن سسٹم غیر فعال دکھائی دینے لگا ہے۔
موصول معلومات کے مطابق ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹنے والی اسمگلنگ کا نیٹ ورک ایک بار پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ فعال ہو چکا ہے۔ اس بار چیکنگ، اسکیننگ اور کڑی نگرانی کے تمام حکومتی دعوے ناکام نظر آتے ہیں۔ بلوچستان سے کراچی تک یومیہ کروڑوں روپے مالیت کی غیرقانونی اشیا کی ترسیل جاری ہے، جس میں نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ مصنوعات شامل ہیں۔ بلکہ ان کی ترسیل اور فروخت میں متعلقہ اداروں کے بعض اہلکار بھی مبینہ طور پر شریک ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یوسف گوٹھ کوئٹہ ٹرمنل اور اس کے اطراف کے گودام اس وقت اسمگل شدہ بھارتی گٹکا، غیر معیاری چھالیہ، غیر ملکی سگریٹ، ایرانی کوکنگ آئل اور تیل سے بھرے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، عید سے قبل ہی ان اشیا کی نئی کھیپ کراچی پہنچ چکی تھی، جسے بعد ازاں شہر کی مختلف مارکیٹوں میں سپلائی کر دیا گیا۔ شہر کی مشہور مارکیٹیں جیسے لی مارکیٹ، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، کھارادر، ڈیفنس اور طارق روڈ کھلے عام اسمگل شدہ اشیا کی فروخت کا مرکز بن چکی ہیں۔
کسٹمز اے ایس او (انفورسمنٹ) کی اینٹی اسمگلنگ کارروائیاں صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود دکھائی دیتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، حالیہ زیادہ تر کامیاب کارروائیاں حساس اداروں کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی تھیں، جس پر کسٹمز کے اندر سے ہی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ ایک سینئر کسٹمز اہلکار نے شناخت چھپانے کی شرط پر بتایا کہ ’’دھائیوں تک کسٹمز کے پاس اپنا مضبوط نیٹ ورک اور مخبر موجود تھے، لیکن اب اگر حساس ادارے معلومات نہ دیں تو کسٹمز کی ٹیمیں حرکت میں ہی نہیں آتیں۔‘‘
ذرائع کے مطابق بلوچستان سے روزانہ درجنوں 10 ویلر ٹرک کراچی پہنچتے ہیں، جو خضدار اور آر سی ڈی شاہراہ کے ذریعے ا?تے ہیں اور حب، منگھو پیر اور دیگر مضافاتی علاقوں کے کچے راستوں سے گزر کر شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر موجود اہلکار یا تو غیر فعال ہیں یا مبینہ طور پر اسمگلروں کے ساتھ ’’سیٹنگ‘‘ میں شامل ہیں۔
اس ضمن میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کسٹمز پریونٹو کلکٹریٹ کراچی کے بعض اہلکاروں کے فرنٹ مین، نہ صرف اسمگل شدہ مال کی جعلی کلیئرنس میں ملوث ہیں بلکہ اس عمل کے لیے اسمگلروں سے بھاری رقم بھی وصول کرتے ہیں۔ ان فرنٹ مینوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ہیڈکوارٹرز اور اے ایس او ٹیموں کے ساتھ ’’معاملات نمٹانے‘‘ کا اختیار رکھتے ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ کئی تاجروں سے بھی بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور جو تاجر انکار کرے، اس کے گودام پر چھاپہ مار کر سامان ضبط کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسی سامان کو پہلے ہی دوسرے ذرائع سے قانونی حیثیت دی جا چکی ہوتی ہے۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اسمگلنگ کے اس بڑھتے ہوئے رجحان نے نہ صرف ملکی صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، بلکہ اس کے ذریعے منی لانڈرنگ، بلیک منی کی سفید کاری، اور ٹیکس چوری جیسے سنگین جرائم بھی پنپ رہے ہیں۔ ایرانی کوکنگ آئل، غیر ملکی ٹائروں اور خوردنی اشیا میں مقامی تاجروں کی بھاری سرمایہ کاری سامنے آئی ہے۔ یہ اشیا سستے داموں فروخت ہونے کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی مقبول ہو رہی ہیں، جس سے مقامی صنعت بْری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق، حاجی صادق، حاجی بسم اللہ، حاجی بالی، حاجی نواز، شیر آغا، نبی بخش، احمد شاہ اور طوفان خان جیسے اسمگلر اس وسیع نیٹ ورک کو چلا رہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں صرف بلوچستان اور سندھ تک محدود نہیں، بلکہ خیبر پختونخواہ تک پھیلی ہوئی ہیں، جہاں ان کے درجنوں کارندے دن رات سرگرم ہیں۔
اس ضمن میں خود کسٹمز کے اندرونی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر اس نیٹ ورک کو جلد نہ توڑا گیا تو نہ صرف ملک کی قانونی و معاشی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی، بلکہ اسمگلنگ مافیا ریاستی رٹ کو بھی مکمل چیلنج کر دے گا۔ اب وقت آچکا ہے کہ نمائشی چھاپوں کے بجائے ان اسمگلنگ نیٹ ورکس کے مرکزی کرداروں اور ان کی سرکاری پشت پناہی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اس کے ساتھ ہی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو کارروائیاں اسمگلنگ کا سامان پکڑنے کے نام پر کی بھی جا رہی ہیں، ان کا دائرہ کار بین الصوبائی سڑکوں اور اندرونی راستوں سے گزر کر آنے والے سامان سے لدی اسمگلروں کی گاڑیوں کے بجائے صرف مقامی شہری مارکیٹوں تک محدود ہیں۔ جہاں پر تاجر بین الصوبائی اسمگلروں کا بلوچستان سے لایا گیا سامان خرید کر اپنی دکانوں اور گوداموں میں رکھ لیتے ہیں۔ تاہم کسٹمز کی ٹیمیں یہ سامان شیلف سے بھی اٹھا کر ضبط کر لیتے ہیں۔
حالانکہ زیادہ تر کارروائیاں اس وقت ہونی چاہیں جب اسمگلر اور ا ن کے ٹرانسپورٹرز اسمگلنگ کا یہ سامان کراچی شہر کے اندر سپلائی کر رہے ہوتے ہیں۔ تاکہ مرکزی اسمگلنگ کے کرداروں کو بھاری مالی نقصان پہنچا کر ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ تاہم اس کے برعکس زیادہ تر کارروائیاں شہرکے تاجروں کے خلاف ہی کی جا رہی ہیں۔
اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹمز کی موجودہ پالیسی غیر منصفانہ ہے کیونکہ اگر واقعی اسمگلنگ کی روک تھام مقصود ہے تو اس کا موثر حل شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر کارروائی ہے، نہ کہ ان مارکیٹوں میں چھاپے مارنا جہاں تاجر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے مال خریدتے ہیں۔ تاجروں کا موقف ہے کہ جب ایک تاجر کسی ہول سیلر سے سامان خریدتا ہے تو اس کی نیت کاروبار کرنا ہوتی ہے نہ کہ غیر قانونی مال خریدنا۔ ایسے میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دکانوں پر تالے توڑ کر سامان ضبط کرنا سراسر زیادتی ہے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ کسٹمز کی ان کارروائیوں سے وہ منظم اسمگلر گروپ متاثر نہیں ہوتے جو بلوچستان یا دیگر علاقوں سے کراچی میں مال پہنچاتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی ترسیل مکمل کر کے الگ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ملی بھگت کرنے والے سرکاری اہلکار بھی اپنا حصہ لے چکے ہوتے ہیں۔ بالآخر نقصان صرف کراچی کے ان تاجروں کو ہوتا ہے جو نادانستہ طور پر اسمگل شدہ سامان خرید لیتے ہیں اور ان کا سامان چھاپوں میں ضبط کر لیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اینٹی اسمگلنگ پالیسی کی کامیابی کے لیے لازم ہے کہ کارروائیوں کا مرکز مارکیٹیں نہ ہوں بلکہ سرحدی چوکیاں، ہائی ویز اور داخلی راستے ہوں، تاکہ غیر قانونی سامان شہر میں داخل ہی نہ ہو۔ بصورت دیگر یہ طرزِ عمل کراچی کے کاروباری طبقے میں بے چینی، نقصان اور بداعتمادی کو جنم دیتا رہے گا۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos