فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسرائیلی جارحیت : آبلے پڑ گئے کیا زبان میں ؟

امت رپورٹ :

جب سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے، شاید ہی کوئی پاکستانی سیاسی رہنما ہو، جس نے ایران کے ساتھ اظہار یکجہتی اور صیہونی ریاست کی مذمت نہ کی ہو۔ سوائے عمران خان کے، اس معاملے پر جنہیں سانپ سونگھا ہوا ہے۔

پہلے اس خاموشی پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے یہ بہانہ کیا کہ ’’مسلم امہ کے انقلابی‘‘ کو چونکہ قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور ان سے کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں، لہٰذا وہ کوئی بیان کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘ حالانکہ یہ ایک بودا جواز تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ کسی ملاقات کے بغیر بھی ان کے ایکس اکاؤنٹ سے مختلف بیانات آتے رہے ہیں، کیونکہ اس اکائونٹ کو امریکہ میں بیٹھا ان کا دست راست جبران الیاس چلا رہا ہے۔ جنہیں اکثر و بیشتر علیمہ خان بھی فیڈ کرتی رہتی ہیں۔

آخرکار پی ٹی آئی کے پیروکاروں کا یہ بودا جواز منگل کے روز ختم ہوگیا، جب اہل خانہ نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی۔ سب امید لگائے بیٹھے تھے کہ ’’مہانتا‘‘ ایران کے حق اور اسرائیل کی مذمت میں ایک زوردار بیان دیں گے۔ لیکن خود پی ٹی آئی کے پیروکار بھی حیران رہ گئے کہ عمران خان کے لمبے چوڑے بیان میں اس حوالے سے ایک لفظ شامل نہیں تھا۔ یوں مسلم امہ کا نام نہاد لیڈر بری طرح سے بے نقاب ہو گیا۔

عمران خان کی اس پوسٹ کے نیچے سوشل میڈیا صارفین نے ’’انقلابی‘‘ کو وہ القاب دئیے کہ اَلاَمان۔ برہم ہونے والوں میں صرف خان کے سیاسی مخالفین ہی نہیں تھے، بلکہ پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان میں سے بعض نے حیرانی، پریشانی اور مایوسی کا اظہار کیا۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان اپنے سابقہ سسرالیوں کے خلاف کیسے بات کر سکتے ہیں۔‘‘ بعض کا خیال ہے کہ بانی پی ٹی آئی اب اپنی رہائی کے لیے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکہ کے جنگ میں ممکنہ طور پر شامل ہونے کی صورت میں اگر ایران میں تختہ الٹنے سے متعلق اسرائیل کا خواب پورا ہوتا ہے تو اس کے بعد شاید پاکستان میں بھی رجیم تبدیل ہو جائے اور یوں ان کی امید بر آئے، چنانچہ اسرائیل کے خلاف بیان دے کر وہ اپنے لئے کیوں مصیبت کھڑی کریں۔

عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں وہی پرانے راگ الاپتے ہوئے اپنی بدترین حکمرانی کے گن گائے ہیں اور ساتھ ہی یہ نوید سنائی ہے کہ عالمی حالات کی وجہ سے انہوں نے اپنی پارٹی کو احتجاجی تحریک دو ہفتے کے لیے مؤخر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چالبازیاں کوئی بانی پی ٹی آئی سے سیکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جون، جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں کوئی سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔

اس سلسلے میں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے ایک سابق عہدیدار سے بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا ’’عام حالات اور خوشگوار موسم میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنان اب سڑکوں پر آنے کے لئے تیار نہیں۔ خاص طور پر پنجاب کو سمجھ آگئی ہے کہ اس کے نوجوانوں کو کیسے استعمال کیا گیا۔ پارٹی قیادت بھاگ گئی۔ گولی اور لاٹھی عام کارکن نے کھائی۔ جو پکڑے گئے، وہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘‘

سابق پارٹی عہدیدار کے بقول عمران خان نے عالمی حالات کا بہانہ کرتے ہوئے فیس سیونگ کی خاطر دو ہفتوں کے لئے احتجاجی تحریک مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے، وہ شرط لگاتے ہیں کہ تحریک موخر کرنے کی تاریخ آگے بڑھتی رہے گی۔ ستائیس جون سے محرم الحرام کا آغاز متوقع ہے۔ ایسے میں کون احتجاج کرے گا۔ ویسے بھی عمران خان نے ایران/ اسرائیل جنگ میں جس طرح خاموشی اختیار کی ہے، اس پر پی ٹی آئی سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والے اہل تشیع حضرات کو خاصی مایوسی ہوئی ہے، بلکہ وہ برہم بھی ہیں۔

پی ٹی آئی کے سابق عہدے دار کی اس بات کی تصدیق سوشل میڈیا پر ہونے والی پوسٹوں سے بھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی جاکر دیکھ سکتا ہے کہ بدنام زمانہ شہباز گل کی ایک ٹویٹ (ایکس پوسٹ) کے نیچے جو اس نے خواجہ آصف کی ایک پوسٹ کے جواب میں کی، صارفین نے کیا چھترول کی ہے۔

قصہ اس اجمال کا یوں ہے کہ دو روز پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایران کے خلاف اسرائیل کی حمایت کرنے والے معزول پہلوی خاندان کے وارث رضا شاہ پہلوی دوئم کو مخاطب کرتے ہوئے ’’طفیلی سامراجی رنڈوا‘‘ کہہ دیا۔ اس پوسٹ کے اسکرین شاٹ کے ساتھ شہباز گل نے طنزیہ ٹویٹ کی ’’زبان دیکھیں۔ نشے کے نقصانات۔‘‘ بس پھر کیا تھا۔ درجنوں سوشل میڈیا صارفین نے شہباز گل کی طبعیت صاف کردی۔

دلچسپ امر ہے کہ ان صارفین میں اکثریت پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی تھی۔ جن میں بڑی تعداد میں اہل تشیع صارفین بھی شامل تھے۔ بیشتر نے گندی گالیوں کے ساتھ بھی اپنے غصے کا اظہار کیا جو تحریر نہیں کی جاسکتیں۔ ایک صارف ارسلان حیدر نے لکھا ’’میں خدا کی قسم عمران خان کا بہت بڑا حامی ہوں۔ لیکن پی ٹی آئی والے ایران اسرائیل جنگ میں اپنی اوقات دکھا رہے ہیں۔ جیل سے جنگ لیڈ کرنے والے میرے لیڈر کا ٹوئٹر اس معاملے میں کیوں خاموش ہے؟‘‘

ایک اور کاز خان نامی صارف نے شہباز گل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں پی ٹی آئی کا ہوں۔ لیکن خواجہ آصف نے جو کہا وہ درست ہے۔ اس پر ہمارا اپنا لیڈر تو خاموش ہے۔ ایران ہمارے لئے بہت حساس معاملہ ہے۔ اپنی شکل دور رکھو۔‘‘ ایک صارف عاجز نے شہباز گل کو اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کا کہتے ہوئے لکھا ’’خواجہ صاحب سے لاکھ سیاسی اختلاف سہی، لیکن انہوں نے ہر پاکستانی کے دل کی بات کہی ہے۔‘‘