فائل فوٹو
فائل فوٹو

سونا اسمگلنگ کا سرغنہ گروپ کو بچانے کیلیے سرگرم

عمران خان :

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی سے حیدرآباد اور دیگر شہروں تک پھیلے ہوئے سونے کی غیر قانونی تجارت اور حوالہ ہنڈی کے ذریعے بیرونِ ملک رقوم کی ترسیل کے ایک منظم نیٹ ورک کے خلاف دائر مقدمے کا عبوری چالان عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔ نیٹ ورک کا مرکزی کردار عبدالباسط آکبانی تاحال مفرور ہے اور باہر رہ کر سارے گروپ کو بچانے کیلئے سرگرم ہوگیا ہے۔ جس میں اسے بعض بااثر عناصر کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائیوں میں مجموعی طور پر 15 کروڑ روپے سے زائد کا سونا اور کرنسی بر آمد کی گئی۔

’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق چالان میں نہ صرف گرفتاریوں اور برآمدگی کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ نیٹ ورک کی ساخت، مجرمانہ طریقہ کار اور ریاستی و قانونی نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ تین ہفتے قبل درج کیے گئے اس مقدمے میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کو اطلاعات ملی تھیں کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع گولڈ ٹاور کی چھٹی منزل پر موجود ایک مخصوص آفس سے سونے کی غیر قانونی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ مزید تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ اس کاروبار کے ذریعے حاصل شدہ رقوم غیر قانونی ذرائع، یعنی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بیرونِ ملک بھیجی جا رہی ہیں۔

ان معلومات کی بنیاد پر ایف آئی اے نے گولڈ ٹاور اور راجہ غضنفر علی روڈ کے قریب واقع گولڈ سینٹر پر چھاپے مارے، جہاں سے 6.21 کلوگرام سونا، 76 لاکھ روپے اور کئی اہم مالیاتی دستاویزات برآمد ہوئیں۔ کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے محمد سلیم عرف سیلم بابا نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ وہ سونا عبدالباسط اکبانی نامی شخص سے خریدتا تھا، جو مذکورہ نیٹ ورک کا اصل سرغنہ ہے۔ عبدالباسط اکبانی، جس کا دفتر بھی گولڈ ٹاور کی چھٹی منزل پر واقع ہے، چھاپے کے وقت موقع سے فرار ہو گیا اور اب تک مفرور ہے۔ سیلم بابا نے بتایا کہ وہ سونا نقدی میں خریدتا اور پھر اسے کراچی کے علاوہ سکھر، نواب شاہ، ٹنڈو آدم، میرپور خاص، عمرکوٹ اور خیرپور کے تاجروں کو فروخت کرتا تھا۔ یہ تمام لین دین نقدی کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ جس میں بینکنگ چینلز، انوائس یا کسی بھی قسم کی قانونی دستاویز شامل نہیں تھی۔

تحقیقات کے مطابق اس نیٹ ورک کی ترسیل کاری کیلئے نوید عالم نامی شخص کو مقرر کیا گیا تھا، جو کراچی سے اندرونِ سندھ سونا اور نقدی لے جانے کا ذمہ دار تھا۔ اس کے ساتھ سلیم بابا کا ایک اور ملازم بسم اللہ بھی شامل تھا، جو مختلف گاہکوں سے نقد رقم وصول کرتا اور ان تک سونا پہنچاتا تھا۔ تفتیش میں یہ بھی سامنے آیا کہ سونے کی تصدیق کیلئے ME گولڈ لیب اور دیگر نجی لیبارٹریز کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ مگر یہ تصدیق محض رسمی اور دکھاوے کیلئے کی جاتی تھی۔ قانونی جانچ یا سونے کی قانونی حیثیت سے متعلق کوئی ریکارڈ موجود نہیں پایا گیا۔

ایف آئی اے کی طرف سے عدالت میں پیش کیے گئے عبوری چالان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ نیٹ ورک ملک میں زر مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہے۔ مقدمے میں شامل دفعات میں کسٹمز ایکٹ 1969 کی دفعہ 156(1)(8)، فارن ایکسچینج ریگولیشن (ترمیمی) ایکٹ 2020 کی دفعہ 5 (2)، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعات 3 اور 4، اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 109، 411 اور 34 شامل ہیں۔

چالان میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مفرور ملزم عبدالباسط اکبانی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں، تاکہ تفتیش کو مکمل کیا جا سکے۔
قانونی ماہرین کے مطابق، اگرچہ مقدمے میں شامل دفعات سخت ہیں، لیکن قانونی نظام میں موجود سقم اور سست روی اکثر ایسے مقدمات کو برسوں تک لٹکا دیتی ہے۔ ایسے مقدمات میں اصل چیلنج ثبوتوں کی دستیابی سے زیادہ، نیٹ ورک کے دیگر کرداروں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ کیونکہ اکثر اصل فنڈنگ کرنے والے یا سرپرست قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔

دوسری جانب یہ اسکینڈل صرف ایک مالیاتی یا تجارتی جرم نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب اربوں روپے کا سونا اور سرمایہ ریاستی کنٹرول سے باہر خفیہ نظام کے تحت گردش کرتا ہے، تو اس کا فائدہ صرف غیر قانونی کاروباری عناصر کو نہیں، بلکہ دشمن قوتوں، کالعدم تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر کو بھی پہنچتا ہے۔ یہی وہ خلا ہے جس پر عالمی ادارے جیسے کہ FATF پاکستان سے بار بار اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس کیس سے واضح ہوتا ہے کہ سونے کی تجارت جیسے حساس شعبے میں کوئی مربوط نگرانی، مرکزی ڈیٹا بیس یا سخت ضابطہ موجود نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ مارکیٹ میں کتنا سونا قانونی ذرائع سے آیا اور کتنا اسمگلنگ کے ذریعے سے پہنچا۔ اسی خلا کا فائدہ اٹھا کر ایسے نیٹ ورک کھلے عام کاروبار کرتے ہیں اور نہ صرف ٹیکس چوری کرتے ہیں بلکہ ریاستی خودمختاری کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔

ایف آئی اے نے اس کیس کو مثال بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاکہ ملک بھر میں ایسے دیگر نیٹ ورکس کو بھی بے نقاب کیا جا سکے۔ تاہم، اس کا انحصار اب عدالت میں ہونے والی کارروائی، حکومت کی سنجیدگی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی ہم آہنگی پر ہے۔ ذرائع کے بقول اگر یہ کیس منطقی انجام کو پہنچتا ہے، تو یہ پاکستان کی غیر رسمی معیشت، حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ جیسے مسائل کے خلاف ایک مضبوط پیغام ہوگا۔