تحریر: غلام حسین غازی
یوم عاشور محض ایک مذہبی دن نہیں، بلکہ تاریخِ اسلام کا وہ عظیم لمحہ ہے جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جانثاراں کی بے مثال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ تاہم دشمنان اسلام حق و باطل کے اس معرکہ میں یوم عاشور تک محرم کے ماہ مقدس کے ابتدائی دس ایام کو مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی کیلئے ایک نادر موقع کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سازشوں کے تانے بانے بنتے ہوئے دہشت گردی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسی سازشوں میں خدانخواستہ کامیابی سے انہیں دوہرا فائدہ پہنچتا ہے اول یہ کہ ان تخریبی کارروائیوں میں مسلمان مرتے ہیں اور دوئم یہ کہ وہ اس کی آڑ میں فرقہ وارانہ اختلافات بڑھانے اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دشمن کی یہ چالیں اب مکمل طور پر ناکامی کا منہ دیکھنے لگی ہیں کیونکہ حکومت اور عوام دونوں دشمن کی مکاریوں کو سمجھ چکے البتہ ان کے وار ناکام بنانے کیلئے حکومت کی زمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان ہمیشہ سے دشمن کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہتے ہیں کیونکہ یہاں کی سرحدیں خانہ جنگی سے متاثرہ برادر ملک افغانستان سے جا ملتی ہیں جہاں بدقسمتی سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا اثر و نفوذ ضرب المثل بن چکا۔ ہر سال کی طرح امسال بھی محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی امن و امان، بین المسالک ہم آہنگی اور دہشت گردی کے خدشات کے تناظر میں ریاستی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اپنی ان نازک زمہ داریوں کو بروقت محسوس کیا اور وزیراعلی علی امین گنڈاپور اور چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کی زیر صدارت ماہ مقدس کی آمد سے قبل ہی اعلی سطح کے اجلاس ہوئے جن میں انتظامی اور پولیس حکام کو واضح ہدایات جاری کی گئیں نیز پاک افغان سرحد پر تعینات پاک فوج سے مربوط معاونت پر زور دیا۔ یقیناً پاک فوج سرحدوں پر شبانہ روز چوکس رہتی ہے لیکن دشمن کی نظر شہروں کے اندر کسی سافٹ ٹارگٹ پر ہوتی ہے تاکہ پرامن شہری لقمہ اجل بنیں اور یوں ان میں باہمی اختلافات کی خلیج کو بھی ہوا دی جائے۔ امسال خیبرپختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومت، خصوصاً وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں جو مربوط اور منظم اقدامات اٹھائے گئے، انہوں نے اس مقدس عشرے کو امن، اتحاد اور ذمہ داری کا خوبصورت استعارہ بنا دیا۔
اگرچہ محرم کے ابتدائی ایام میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے مگر سیکورٹی اور انتظامی افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر شہریوں کو جانی نقصانات سے بچایا اور عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کا وعدہ بطریق احسن نبھایا۔ جیسے منگل یکم محرم کو ہی لکی مروت کے تاجہ زئی چوک میں موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے ڈیوٹی پر مامور دو پولیس جوانوں پر گولیاں برسا کر خون میں نہلایا، اگلے روز بدھ دو محرم کو باجوڑ میں دہشتگردی واقعہ میں سوات سے تعلق رکھنے والے بہادر اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افسران نے گشت کے دوران ہی جام شہادت نوش کیا، پھر اگلے روز جمعرات تین محرم کو پشاور کے ریگی للمہ پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کیا مگر سیکورٹی فورسز کو الرٹ دیکھ کر بھاگ نکلے جبکہ جمعہ چار محرم کو شمالی وزیرستان میں پاک افغان سرحد پر بھارتی حمایت یافتہ تیس دہشت گرد دراندازی کی کوشش میں مارے گئے۔ سیکورٹی فورسز اور انتظامی افسران کو نشانہ بنانے کا مقصد ان کا مورال گرانا اور شہروں میں نرم اہداف تک پہنچنا ہوتا ہے مگر آفرین ہے ان بہادر سیکورٹی جوانوں اور انتظامی افسران پر جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا اور پھر پورے صوبہ میں نہ صرف مکمل امن و امان رہا بلکہ یگانگت کی مثالی فضا قائم ہوئی۔ شمالی وزیرستان کے عوام نے علاقہ چھوڑنے کی بجائے پاک فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعلی نے سی ایم ایچ پشاور میں زخمی سیکورٹی جوانوں کی عیادت کی اور عوام کے تحفظ کیلئے جانوں کے نذرانے دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ چنانچہ سیکیورٹی اداروں، ضلعی انتظامیہ، محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے جس جانفشانی اور پیشہ ورانہ بصیرت کے ساتھ کام کیا، اس کے باعث مذکورہ چار واقعات کے سوا صوبے بھر میں یوم عاشور کے دس دن مکمل طور پر پرامن گزرے۔ بالخصوص شہروں میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا اور نہ ہی کسی شہری کو معمولی خراش تک آنے دی گئی، بلکہ عزاداروں اور شہریوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی گئیں۔ مجالس، جلوسوں، اہل سنت کے اجتماعات، سبھی مجالس محفوظ اور منظم انداز میں مکمل ہوئے۔ یہ اسی مربوط حکومتی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا کہ سیکیورٹی کے معاملات میں نہ کوئی کمی محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی حساس مقام پر بے چینی پیدا ہوئی۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے خود پشاور کے سرکلر روڈ پر واقع کوہاٹی گیٹ سنٹرل کمانڈ پوسٹ کا دورہ کیا۔ وہاں انہیں پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے سیکورٹی پلان پر بریفنگ دی گئی جس پر انہوں نے سیکورٹی انتظامات کو تسلی بخش قرار دیا اور عملے کو شاباش دیتے ہوئے ان کیلئے دس دس ہزار روپے اعزازیہ کا اعلان بھی کیا۔ ان کے دورے سے نہ صرف عملے کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ یہ پیغام بھی ملا کہ حکومت سب کچھ خود مانیٹر کر رہی ہے اور عوامی تحفظ اس کی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلیٰ نے تمام اداروں کی کارکردگی کو سراہا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ خیبرپختونخوا کو امن، اتحاد اور ترقی کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ محرم الحرام کے جلوسوں اور مجالس کیلئے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے ہیں، صوبہ بھر میں محرم الحرام کے دس ہزار مجالس اور ایک ہزار جلوس منعقد ہونگے،۔ان جلوسوں اور مجالس کی سکیورٹی کیلئے چھتیس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں،کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہسپتالوں، ریسکیو اور ٹی ایم ایز میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کا، جو کہ عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہو کر آئی ہے، ہر فیصلہ اور ہر قدم عوامی مفاد، قومی یکجہتی اور ریاستی استحکام پر مبنی ہے۔ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں یہ حکومت سیاسی نعروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے اور یوم عاشور کی سیکیورٹی پر اس کی بروقت حکمت عملی اس بات کا عملی ثبوت ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر مذہبی ایام، خصوصاً محرم، دہشت گردوں کا ہدف کیوں بنتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا مقصد امتِ مسلمہ کے درمیان انتشار پیدا کرنا، فرقہ واریت کو ہوا دینا اور حکومت پر عوام کا اعتماد متزلزل کرنا ہوتا ہے۔ مگر اس سال خیبرپختونخوا میں جو امن قائم رہا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب حکومت پرعزم ہو، ریاستی ادارے متحرک ہوں اور عوام باشعور، تو کوئی فتنہ گر خواہ کتنا ہی منظم کیوں نہ ہوں، وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس عشرہ محرم میں ہم نے ایک بار پھر یہ مشاہدہ کیا کہ اہل تشیع اور اہل سنت نے اپنے عقائد کے مطابق امام حسینؓ کے لازوال ایثار کو خراج عقیدت پیش کیا، مجالس و اجتماعات منعقد کئے اور کہیں سے بھی نفرت یا اشتعال انگیزی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ یہ شعور درحقیقت اس تربیت، بصیرت اور حکومتی سرپرستی کا نتیجہ ہے جو ہر سطح پر موجود رہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کامیاب ماڈل کو صرف عاشورہ تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے اجتماعی زندگی کے ہر شعبے تک وسعت دیں۔ ہم سمجھیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود پرامن بقائے باہمی ہی دینِ اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہم دشمن کے چالوں کو سمجھ جائیں، اداروں پر اعتماد بحال رکھیں اور باہمی اخوت کو مضبوط کریں تو یقیناً ہم پاکستان کو فتنہ و فساد سے پاک، ترقی یافتہ، اور روشن معاشرہ بنا سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے عاشورہ کے دوران جو امن قائم رکھا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ یہ نہ صرف سیکورٹی کی فتح ہے بلکہ عوامی اعتماد کی جیت بھی ہے۔ بلاشبہ یہ ثبوت ہے کہ جب نیت صاف ہو، قیادت دیانتدار ہو اور وژن واضح ہو تو مسائل کے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos