کمرے میں نرم و دھیمی روشنی رکھی جائے، طبی ماہرین، فائل فوٹو
کمرے میں نرم و دھیمی روشنی رکھی جائے، طبی ماہرین، فائل فوٹو

رات کو مصنوعی روشنی کا استعمال امراض قلب کا سبب

محمد اطہر فاروقی:

رات کے اوقات میں سونے سے قبل کمرے میں مصنوعی روشنی جیسے موبائل فونز، لیب ٹاپ و ایسے دیگر عوامل کا زیادہ استعمال دل کے امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ یہ انکشاف آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کی ماہرین امراض قلب نے بھی تصدیق کی اور سائنسی طور پر درست قرار دیا ہے۔ ماہرین کے بقول انسانی جسم میں ایک قدرتی نظام موجود ہوتا ہے، جو نیند، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی افعال کو منظم رکھتا ہے۔ جب رات کے وقت موبائل، ٹی وی یا تیز بلب کی روشنی میں وقت گزارتے ہیں تو یہ نظام متاثر ہوتا ہے۔ جس سے جسمانی نظام میں بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ سونے کے وقت کمرے میں نرم اور دھیمی روشنی استعمال کریں اور سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے اسکرین سے دوری اختیار کرلیں۔

آسٹریلیا کی فلنڈرز ہیلتھ میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ رات کے وقت مصنوعی روشنی کے سامنے زیادہ وقت گزارنا دل کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور دل کے مختلف امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق رات کے وقت روشن ماحول میں رہنے سے دل کی شریانوں کی بیماری، دل کا دورہ، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی اور فالج کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق یہ نقصان صرف نیند کی کمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ روشنی کے براہ راست اثر سے ہوتا ہے۔ حتی کہ جب نیند کا کم دورانیہ، کھانے پینے کی عادات، ورزش، تمباکو نوشی یا وزن جیسے دیگر عوامل کو مدنظر رکھا گیا تو ان سب میں دل کے امراض کو متاثر کرنے کیلئے روشنی کا اثر نمایاں رہا۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین میں دل کے امراض اور ہارٹ فیل ہونے کے خطرات زیادہ، جبکہ نوجوانوں میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے امکانات زیادہ دیکھے گئے۔

اس تحقیق کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے کراچی کے ماہرین امراض قلب سے بھی رابطہ کیا اور پوچھا کہ آیا اس طرح کے کیسز کراچی میں آرہے ہیں یا نہیں۔ نیز اس کے بچائو کے طریقے کیا ہیں؟ اس حوالے سے سول اسپتال کے شعبہ امراض قلب کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر نواز لاشاری نے بتایا کہ یہ بات ثابت ہے کہ رات کے اوقات میں عموماً سونے سے قبل مصنوعی روشنی کے زیادہ استعمال سے آنکھوں اور دماغ سمیت دل پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ انسانی جسم میں قدرتی نظام ہوتا ہے، جو دل کی دھڑکن، نیند، بلڈ پریشر وغیرہ کے نظام کو بہتر رکھتا ہے۔ لیکن جب رات کو سونے سے قبل مصنوعی روشنی کا استعمال کرتے ہیں تو یہ نظام متاثر کرتا ہے اور دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ کراچی میں بھی ہمارے پاس اس طرح کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

مریض سے ہسٹری لیتے وقت علم ہوا کہ دل کے بیشتر مریض رات کے اوقات میں زیادہ موبائل فون اور مصنوعی روشنی کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسان کا جسم ایک مکمل سائیکل کی طرح چل رہا ہوتا ہے۔ ہر انسان روٹین کے مطابق جاگتا اور سوتا ہے۔ کوئی لائٹ جلا کر سوتا ہے اور کوئی مکمل آنکھیں بند کر دیتا ہے۔ انسان کی روٹین اور قدرتی سسٹم تبدیل ہو جائے تو سائیکل خراب ہونا شروع ہوتی ہے اور وہیں سے صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست اور سائنس سے بھی ثابت ہے کہ رات کے اوقات میں مصنوعی روشنی کے زیادہ استعمال سے آنکھوں پر اثر پڑتا ہے اور آنکھوں کے نیچے ڈارک سرکل بن جاتے ہیں۔ سر میں درد اور دماغ متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

اسی روشنی کی وجہ سے نیند بھی متاثر ہوتی رہتی ہے۔ ان سب معاملات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی صحت متاثر ہونا شروع ہوتی ہے اور پھر آخر میں دل کے امراض جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر نواز لاشاری کے بقول ’’اللہ تعالیٰ نے رات سونے کیلئے ہی بنائی ہے اور یہ اللہ پاک کی قدرت ہے۔ ہر شخص نے عموماً یہ تجربہ خود کیا ہوگا کہ وہ رات وقت پر سوتا اور وقت پر جاگتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجوہات کی بنا پر وہ رات میں نہ سو پائے تو دن میں سونے کی باوجود اس کی طبیعت میں بوجھل اور سستی رہتی ہے۔ کیونکہ اس کا جسمانی سسٹم متاثر ہوا ہے۔ جسم متاثر ہونے کے بعد آہستہ آہستہ شوگر اور بلڈ پریشر کی طرف مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور یہ دل کے امراض کا سبب بنتا ہے‘‘۔

قومی ادارہ برائے امراض قلب کے اسسٹنٹ پروفیسر کے بقول انسانی جسم میں ایک قدرتی نظام موجود ہوتا ہے۔ جو نیند، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی افعال کو منظم رکھتا ہے۔ جب رات کے وقت موبائل، ٹی وی یا تیز بلب کی روشنی میں وقت گزارتے ہیں تو یہ نظام متاثر ہوتا ہے۔ جس سے جسمانی نظام میں بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’’اس سے بچائو کیلئے سب سے آسان اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ رات کے وقت موبائل فون، ٹی وی اور تیز روشنیوں کے استعمال کو محدود کریں۔