‎منشیات کے خلاف جہاد:پشاور میں ریاض محسود کی زیرنگرانی تبدیلی مشن


‎تحریر: غلام حسین غازی


‎پشاور، جو خیبر پختونخوا کا دل کہلاتا ہے، اپنی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کیلئے ارفع مقام رکھتا ہے۔ اگرچہ موجودہ پی ٹی آئی دور حکومت میں اسے دوبارہ پھولوں کا شہر بنا کر اس کی عظمت رفتہ بحالی کی کوششیں جاری ہیں اور اسکی ترقی و خوبصورتی کیلئے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی خصوصی ہدایت پر کئی منصوبے زیرتکمیل ہیں تاہم بدقسمتی سے کافی عرصے سے منشیات کی لعنت نے اس شہر کے چہرے کو داغدار بنایا تھا۔ یہاں کے نوجوان، جو اس شہر اور قوم کا مستقبل ہیں، نشے کی دلدل میں دھنسے جا رہے تھے۔ گلی کوچوں اور تعلیمی اداروں کے نواحات میں نشئی افراد کی ٹولیاں چادریں اوڑھے معاشرے کا منہ چڑا رہی تھیں۔ اس صورتحال نے والدین، اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد کو پریشان کر رکھا تھا۔ ایسے میں کمشنر پشاور ریاض محسود نے دیگر شعبوں کی طرح یہ چیلنج بھی قبول کیا اور "منشیات سے پاک پشاور” کے نام سے ایک شاندار مہم کا آغاز کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر عزم ہو تو معاشرے سے کوئی بھی لعنت ختم کی جا سکتی ہے۔

‎یہ مہم کوئی معمولی کوشش نہیں تھی۔ اس کا مقصد پشاور کو منشیات سے مکمل طور پر پاک کرنا تھا۔ اس کے تحت گندے نالوں اور بند چوپالوں میں چھپے نشئیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ اور پکڑ پکڑ کر علاج و بحالی مراکز پہنچایا گیا اور نہ صرف علاج کی سہولت دی گئی بلکہ انہیں معاشرے میں باعزت مقام دلانے کے مواقع بھی فراہم کئے گئے۔ مسئلہ کی گھمبیر نوعیت اور حکومت کے محدود وسائل کے پیش نظر مہم کو کئی مراحل میں تقسیم کیا گیا تاکہ اسے منظم اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ اس کے پیچھے ایک جامع منصوبہ بندی تھی جس میں طبی امداد، آگاہی مہمات اور چھوٹے کاروبار کیلئے مالی امداد شامل تھی تاکہ بحال افراد اپنے پاؤں پر بھی کھڑے ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی منشیات کی روک تھام اور سمگلروں کی سرکوبی پر مامور اداروں سے موثر رابطہ اور معاونت بھی مہم کا حصہ ہے تاکہ معاشرے سے اس ناسور کی مستقل بیخ کنی ہو۔

‎اب تک اس مہم کے تین مراحل مکمل ہو چکے ہیں اور نتائج حیران کن ہیں۔ پہلے دو مراحل میں جو 2022 سے 2024 تک جاری رہے، 2,400 افراد کو نشے سے نجات دلائی گئی۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے میں، جو نومبر 2024 سے مارچ 2025 تک چلا، مزید 1,239 افراد کو بحال کیا گیا۔ مجموعی طور پر 3,639 افراد اب تک اس مہم کے ذریعے نئی زندگی پا چکے ہیں جبکہ حال ہی میں اس کا چوتھا مرحلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ریاض محسود کی قیادت میں یہ مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور نہ صرف شہر نشئیوں بلکہ لامحالہ چوری چکاریوں اور دیگر جرائم سے بھی سے پاک ہونے لگا ہے۔

‎اس مہم میں منشیات کی ان اقسام کو نشانہ بنایا گیا جو پشاور کے نوجوانوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی تھیں۔ ان میں ہیروئن، آئس (کرسٹل میتھ) اور چرس سرفہرست تھیں۔ بحالی کے عمل کو موثر بنانے کیلئے خیبر ٹیچنگ ہسپتال جیسے بڑے طبی اداروں اور درجنوں بحالی مراکز کی معاونت بھی لی گئی اور مفت علاج کے ساتھ ساتھ کاؤنسلنگ کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ اس عمل میں نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی مدد کو بھی اہمیت دی گئی تاکہ متاثرین دوبارہ اس دلدل میں نہ پھنسیں۔
‎ 
‎مالی وسائل کے بغیر کوئی بھی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس مہم کیلئے صوبائی حکومت نے دل کھول کر تعاون کیا۔ وزیراعلی علی امین گنڈا پور نے بذات خود اس مہم میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف اجلاس کئے بلکہ منشیات کے خلاف آگاہی واک کی قیادت کی۔ تیسرے مرحلے کیلئے 32 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جو اس مہم کی وسعت اور سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر بحال شدہ فرد کو 50,000 روپے کی مالی امداد دی گئی تاکہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ سنوار سکے۔

‎لیکن ہر اچھے کام میں روڑے اٹکانے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ریاض محسود کو منشیات مافیا کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان مافیاز نے نہ صرف انہیں مختلف ذرائع سے دھمکیاں دیں بلکہ اس مہم کو ناکام بنانے کیلئے ہر حربہ آزمایا۔ اس کے باوجود ریاض محسود نے ہمت نہ ہاری اور حصول مقصد کیلئے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کے پہاڑ جیسے حوصلے نے مافیا کے حوصلے پست کیئے۔ یہ مخالفت صرف زمینی سطح تک محدود نہ رہی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی کمشنر کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ مثال کے طور پر ابھی حال میں جون 2025 کے دوران فیس بک چینل "پختونخوا ڈیجیٹل” نے ریاض محسود پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور نہ صرف منشیات کے خلاف مہم میں کرپشن اور مبالغہ آمیز اخراجات کی گردان لگا کر رائی کا پہاڑ بنانا شروع کیا بلکہ ان کی کردار کشی کی کوشش بھی کی۔ یہاں تک بار بار الزام لگایا کہ کمشنر نے حیات آباد میں چھ کلومیٹر جاگنگ ٹریک کی تعمیر پر سات ارب روپے خرچ کر ڈالے اور صرف ٹریک کا جنگلہ 37 کروڑ روپے میں پڑا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ٹریک پر کل اخراجات کا تخمینہ ہی 37 کروڑ روپے ہے جس میں پیدل جاگنگ اور سائیکلنگ کیلئے الگ ٹریک اور ہر کلومیٹر پر جدید آرام گاہیں زیر تعمیر ہیں اور اس سکیم سے پورے حیات آباد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس محفوظ ٹریک کی بدولت جہاں خواتین بڑوں و نوجوانان سمیت اتنی بڑی ابادی کیلئے صبح و شام کی سیر اور ورزش کا بڑا ذریعہ نکلا وہاں علاقے کی خوبصورتی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مگر مخالفین کی طرف سے الزام تراشیاں بدستور جاری ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بدنامی کیلئے پشاور میں دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کی آبادکاری کا شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے اور اس کی ذمہ داری کمشنر پشاور ڈویژن اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر عائد کی گئی ہے تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے غیر قانونی افراد کے خلاف سیکورٹی اداروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشن اور ان کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم ستم یہ کہ اس گھمبیر الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح کمشنر کی جانب سے پشاور میں مثالی صحت و صفائی اور سیکورٹی انتظامات کو زیرو سے ضرب دینے کی یہ کہتے کوشش کی گئی کہ عیدالاضحی کے موقع پر انتظامی افسران اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں اور پشاور کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اسلئے کمشنر کے علاؤہ وزیراعلی اور گورنر کے عہدے بھی اہل پشاور کو ملنے چاہئیں حالانکہ اس عید پر صوبائی دارالحکومت میں مثالی
‎آمن و امان کے ساتھ ساتھ اتنی عمدہ صفائی ہوئی کہ قومی ذرائع ابلاغ نے اس کی تعریف کی اور فوٹیج بھی چلائی۔ ہزاروں ٹن آلائشوں اور قربانی کے جانوروں کی باقیات بروقت ٹھکانے لگائی گئیں۔ اس کی نگرانی کیلئے کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود عید الاضحی کے پہلے اور دوسرے روز بذات خود پشاور میں موجود رہے اور صفائی مہم کو عوامی حلقوں کی جانب سے زبردست پزیرائی ملی تاہم ریاض محسود نے ایسے تمام الزامات کا برا منانے اور اختیارات کا سختی سے استعمال کی بجائے  کا ان جواب بڑے پیار اور تحمل سے دیا اور واضح کیا کہ وہ ہر کام میں نتائج کے علاؤہ شفافیت کے قائل ہیں۔ انہوں نے نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس مہم کا آڈٹ کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور سچ سب کے سامنے آ سکے۔

‎ریاض محسود کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ ہر مشکل حالات میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ ابھی کل ہی انہوں نے پشاور امتحانی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر بھی اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔ انہوں نے نقل مافیا کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اور کلسٹر سسٹم ختم کرکے تعلیمی نظام میں شفافیت لائے جس کی بدولت امتحانی ہال بیچنے کا قلع قمع ہوا اور یہ کہانیاں بھی قصہ پارینہ بن گئیں۔ اسی طرح، منشیات کے خلاف اس مہم میں بھی انہوں نے اپنی لگن اور محنت سے سب کو متاثر کیا۔ ان کا یہی جذبہ انہیں ایک قابلِ قدر منتظم ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔

‎اس مہم کا سب سے بڑا فائدہ پشاور کے نوجوانوں کو پہنچا جن کی زندگیاں نشے نے تباہ کر دی تھیں، اب انہیں دوبارہ معاشرے کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ بحالی کے بعد انہیں تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت دی گئی تاکہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔ اس کے علاوہ، شہر بھر میں آگاہی سیشنز منعقد کیے گئے، جن کا مقصد نئی نسل کو منشیات کے نقصانات سے خبردار کرنا تھا۔ لگتا ہے کہ پشاور کے مستقبل پر اب امید کی روشنیاں پڑنے لگی ہے۔

‎اب مہم کا چوتھا مرحلہ بھی جاری ہے اور اس میں باقی ماندہ 300 سے 400 نشے کے عادی افراد کو بحال کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ریاض محسود کا ویژن ہے کہ پشاور کو منشیات سے مکمل طور پر پاک شہر بنایا جائے اور اس کیلئے وہ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ مستقبل کے منصوبوں میں سکولوں اور کالجوں میں آگاہی پروگرامز شامل ہیں تاکہ بچوں کو شروع سے ہی اس لعنت سے دور رکھا جا سکے۔ ان کی یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ وہ صرف نوجوانوں کا حال نہیں بلکہ مستقبل کو بھی سنوارنا چاہتے ہیں۔

‎اس مہم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی ریاض محسود کی تعریف کی اور اسے ایک مثالی منصوبہ قرار دیا۔ شہریوں نے بھی اس مہم میں بھرپور تعاون کیا جس کی وجہ سے نتائج مزید بہتر ہوئے۔ نہ صرف پشاور بلکہ قومی سطح پر بھی اس مہم کو پذیرائی ملی اور اب یہ دوسرے شہروں کیلئے ایک رول ماڈل بن چکی ہے۔ یہ سب کچھ ایک شخص کی لگن اور محنت کا نتیجہ ہے جو اپنے شہر کو بہتر بنانے کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔

‎یہ کہنا بجا ہوگا کہ ریاض محسود پشاور کیلئے ایک تحفہ ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اگر دل میں لگن ہو تو کوئی بھی ناممکن کام ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کی اس مہم نے نہ صرف پشاور کے نوجوانوں کو نئی زندگی دی بلکہ پورے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کا آغاز کیا۔ جب قیادت دلیری اور ایمانداری سے کام کرے تو کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں رہتا۔ ریاض محسود نے اپنی محنت سے یہ بتا دیا کہ سچے عزم کے آگے ہر رکاوٹ سر جھکا دیتی ہے۔