عمران خان :
کراچی سے پکڑی جانے والی جعلی ادویات کا نیٹ ورک مختلف شہروں میں پھیلا ہوا ہے۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ حیدرآباد، ملتان، لاہور اور سرگودھا میں اس گروپ کے کارندے موجود ہیں۔ جن میں سے متعدد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جبکہ تفتیش میں سنسنی خیز حقائق سامنے آئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ڈریپ سے ملنے والی معلومات کے مطابق پاکستان میں صحت کا شعبہ ایک مسلسل بحران کا شکار ہے۔ مگر اس بحران کا سب سے بھیانک اور خوفناک پہلو جعلی اور غیر معیاری ادویات کی موجودگی ہے۔ جو نہ صرف انسانی جسم کو تباہ کرتی ہیں بلکہ صحت کے نظام کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہیں۔ جب مریض اسپتال، ڈاکٹر یا میڈیکل اسٹور سے دوا خریدتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ شفا حاصل ہو گی۔ لیکن بدقسمتی سے وہ دوا اس کے جسم میں زہر بن کر پھیلتی ہے۔
ڈریپ ذرائع کے مطابق پاکستان میں کم از کم 10 فیصد ادویات جعلی یا مشتبہ ہیں۔ جبکہ جان بچانے والی اہم ترین ادویات کے معاملے میں یہ شرح 50 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بازار، اسپتال اور فارمیسیز زہر بیچنے کی ممکنہ جگہیں بن چکی ہیں۔ ذرائع کے بقول گزشتہ دنوں کراچی میں جعلی ادویات کی ایک بھاری مقدار پکڑی گئی، جس کے بعد تفتیش کا دائرہ بڑھایا گیا۔
حیدرآباد سے گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا کہ یہ ادویات ملتان سے آتی تھیں۔ مزید کھوج لگانے پر پتا چلا کہ ان جعلی ادویات کی تیاری ملتان میں کی جاتی ہے، جبکہ ان کی پیکنگ کا سامان لاہور کی ایک پرنٹنگ پریس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ لاہور میں موجود اس پرنٹنگ پریس نے اعتراف کیا کہ وہ یہ پیکنگ مواد صرف ملتان ہی نہیں بلکہ سرگودھا، کراچی، قصور، پشاور اور بلوچستان و خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں تک بھی فراہم کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک منظم اور ملک گیر نیٹ ورک ہے۔ جس میں پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر کا کوئی نہ کوئی کردار موجود ہے۔
گزشتہ دنوں خصوصی ٹیم نے کراچی، لاہور، پشاور اور اندرونِ سندھ کے مختلف میڈیکل اسٹورز کا سروے کیا۔ ٹیم نے جن دوائوں کے QR کوڈ اسکین کیے، ان میں سے کئی ایسی نکلیں جو یا تو جعلی تھیں یا ان کے لیبل اور ایکسپائری تاریخ میں جعلسازی کی گئی تھی۔ بعض دوائوں کی پیکنگ تو مشہور برانڈز جیسی تھی، لیکن دوا دراصل کسی غیر مستند یا غیر رجسٹرڈ کمپنی کی تھی۔ کئی QR کوڈ اسکین کرنے پر ڈیٹا دستیاب ہی نہ تھا، جو ظاہر کرتا ہے کہ دوا جعلی یا نظام سے باہر تھی۔
ڈریپ حکام کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے حالیہ دنوں ایک موبائل ایپ متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ایپ کا مقصد شہریوں کو ادویات کی اصلیت جانچنے کا موقع دینا ہے۔ اس کے ذریعے صارف دوا کے پیک پر چھپے QR کوڈ کو اسکین کرے گا، اور ایپ فوری طور پر یہ اطلاع دے گی کہ دوا اصلی ہے، جعلی ہے یا زائدالمعیاد ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوا سے متعلق تمام معلومات جیسے کمپنی کا نام، بیچ نمبر، ایکسپائری ڈیٹ اور تیاری کی تفصیل خودکار طور پر DRAP کو منتقل ہو جائے گی۔ جس سے ادارہ فوری کارروائی کر سکے گا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ صارف کو دوا کی قیمت کا دو فیصد حصہ بطور انعام اس کے بینک اکاؤنٹ یا موبائل والٹ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ چاہے دوا اصلی ہو یا جعلی ہو۔ یہ مالی ترغیب اس نیت سے رکھی گئی ہے کہ عام شہری دوا اسکین کرنے کی عادت اختیار کریں اور یوں جعلی دوائوں کے خلاف ایک قومی مہم کی صورت اختیار کی جا سکے۔ یہ دو فیصد رقم محض ایک انعام نہیں بلکہ ایک مثبت قدم ہے۔ جس سے نہ صرف دوا کی تصدیق کا عمل عام شہریوں کے ہاتھ میں آ جائے گا بلکہ ملک کی ایک بڑی آبادی بینکاری نظام میں شامل ہو جائے گی۔
آج بھی کروڑوں پاکستانی ایسے ہیں جن کے پاس نہ بینک اکاؤنٹ ہے نہ مالیاتی شناخت ہے۔ اس سادہ قدم کے ذریعے ریاست عام لوگوں کو مالیاتی لین دین کے دستاویزاتی نظام میں میں شامل کر سکتی ہے، جو وہ سات دہائیوں میں نہ کر سکی۔ تاہم یہ تصور بھی کچھ چیلنجز کے بغیر نہیں۔ دیہی علاقوں میں اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر ملک میں ڈیجیٹل خواندگی کی شرح کم ہے اور عام لوگ اب بھی ایسی ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں۔ جعلی دوا ساز مافیا خود جعلی QR کوڈ بنا کر نظام کو دھوکا دینے کی کوشش بھی کر سکتی ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ DRAP کو موصول ہونے والی معلومات پر بروقت اور عملی کارروائی کیسے کی جائے۔
’’امت‘‘ کی تحقیقات کے دوران کئی سرکاری افسران نے بتایا کہ جعلی ادویات بنانے والی کمپنیاں بعض اوقات بااثر سیاسی یا مالی حلقوں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ایک اہلکار نے شرطیہ کہا ’’یہ کمپنیاں وہی ہیں جو اشتہارات دیتی ہیں۔ میڈیکل کانفرنسز اسپانسر کرتی ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنے والا افسر اپنی پوسٹنگ کھو دیتا ہے۔ جعلی دوا صرف مریض کے جسم کو نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ مریض جسمانی، نفسیاتی اور مالی نقصان اٹھاتا ہے۔ ڈاکٹر پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ ریاست کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے۔ قانون کی بے توقیری بڑھتی ہے، اور مجرمانہ رویے جڑ پکڑتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف ایک موبائل ایپ سے حل نہیں ہوگا۔ ضرورت ہے کہ حکومت سخت قانون سازی کرے۔ دوا سازی کے نظام کو شفاف بنائے۔ جعلی دوا فروشوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کرے اور عوامی شعور کی مہم چلائے۔ DRAP کو ایک خودمختار، بااختیار اور عوامی مفاد پر مبنی ادارہ بنانا ہو گا، نہ کہ محض ایک بیوروکریٹک خانہ پُری کی جائے۔ ڈریپ ذرائع کے مطابق اگر آج اس بیماری کو جڑ سے نہ کاٹا گیا تو کل شفا خانے قبرستان میں بدل سکتے ہیں۔ ریاست کیلئے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ عوامی صحت کے مسئلے کو معاشی اصلاحات سے جوڑ کر ایک قومی تحریک کا آغاز کرے اور عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں فعال کردار ادا کریں۔
ذرائع کے بقول کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے جہاں ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ وہیں ملک میں سرگرم ہر قسم کی مافیا کا سب سے بڑا ہدف بھی رہا ہے۔ ایسے ہی جعلی ادویات مافیا کے بڑے نیٹ ورک اس شہر میں کام کرتے چلے آئے ہیں۔ جو کراچی سے ملک بھر میں جعلی، غیر معیاری اور اسمگل شدہ ادویات سپلائی کرتے رہے ہیں۔ اربوں روپے کا سالانہ دھندا ایک جانب مگر اس وقت حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ اس مذموم کاروبار میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف مقدمات بنوانے کے ذمہ دار وفاقی ادارہ ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی کے متعدد اضلاع بشمول ضلع سائوتھ، ویسٹ، وسطی اور ضلع شرقی کے اضلاع بغیر فیڈرل ڈرگ انسپکٹرز کے چلائے جا رہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos