تحریر: غلام حسین غازی
خیبرپختونخوا میں ماحولیاتی تحفظ کی کوششیں اب محض حکومتی منصوبہ نہیں رہیں بلکہ ایسی انقلابی تحریک بن گئی ہیں جو قومی و عالمی سطح پر موسمیاتی بہتری کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کا ماڈل بن کر ابھری ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کے دیگر صوبے اور وفاقی حکومت موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات پر محض بیانات، اجلاسوں اور رسمی اقدامات تک محدود ہیں، خیبرپختونخوا حکومت نے کاربن کریڈٹس کے ذریعے اپنے جنگلات اور ماحولیات کو معاشی طاقت میں بدلنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیرصدارت اجلاس میں فارسٹ کاربن کریڈٹ میپنگ پالیسی کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہے جو دراصل ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی ہے اور جنگلات کے تحفظ سے لے کر ڈالروں کی شکل میں قیمتی زرمبادلہ کمانے تک کی ایک مربوط اور پائیدار راہ ہموار کرتی ہے۔ اس انقلابی پالیسی کا خلاصہ ایک سادہ عام فہم جملے میں یوں کیا جا سکتا ہے: جنگلات کا تحفظ، ماحول کی بہتری اور عالمی کاربن مارکیٹ سے آمدنی کا حصول۔ واضح رہے کہ جنگلات ٹنوں کے حساب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو زمین کو گرم کرنے والی زہریلی گیسوں کے خلاف ایک قدرتی ڈھال ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اس پالیسی نے جنگلات کو محض سرسبز قطعات نہیں بلکہ آمدن بخش نقد اور سرمایہ بنا دیا ہے۔ یہ اقدام دنیا بھر میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا بہترین نمونہ بن سکتا ہے کیونکہ یہ صرف ماحولیاتی یا اقتصادی نوعیت کا منصوبہ نہیں بلکہ ایسا وژن ہے جو حکومتی بالغ نظری، عوامی شمولیت اور عالمی شراکت داری کو یکجا کرکے ہمہ جہت مشن بنا دیتا ہے۔
اس پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا حکومت نے اپنی پہلی کاربن اثاثہ انوینٹری متعارف کرا دی ہے جسے محکمہ توانائی کے ماتحت ادارے پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے ذریعے قابلِ تجدید توانائی کے گرین یعنی سرسبز منصوبوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس انوینٹری کی سالانہ پیداواری صلاحیت 5.4 ملین ٹن کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی اور 11.9 ملین انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی سرٹیفکیٹس (I-RECs) ہے جو عالمی سطح پر قابلِ فروخت ہوتے ہیں۔ اسی سمت عملی قدم آگے بڑھاتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت نے پاکستان انوائرنمنٹل ٹرسٹ کی وساطت سے اپنے پانچ منصوبے عالمی کاربن مارکیٹ میں رجسٹرڈ کروا دیئے ہیں جو صوبہ کیلئے عالمی برادری تک رسائی اور سرمایہ کاری کا راستہ کھولیں گے۔
یہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے تمام جنگلات کاری منصوبے بھی عالمی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ بلین ٹری سونامی کے ذریعے ایک ارب بیس لاکھ درخت لگائے گئے جن سے ہر سال 2.5 ملین ٹن کاربن جذب کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ پھر ٹین بلین ٹری سونامی میں ساڑھے تین ارب درخت لگ چکے ہیں جن کا ہدف 2030ء تک سالانہ 10 ملین ٹن کاربن جذب کرنا ہے۔ اعلان کردہ کریڈٹس رپورٹ کے مطابق صوبے کے 2.2 ملین ہیکٹر رقبے پر محیط دس منصوبے 400 ملین ٹن کاربن جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن سے 4 ارب ڈالر آمدنی اور 50 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں جو غیر معمولی پیشرفت ہے۔ اس انقلابی پالیسی کے اجراء کا کریڈٹ صوبہ کے بردبار اور نڈر وزیراعلی علی امین گنڈاپور اور منتظم اعلیٰ یعنی چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ کو جاتا ہے جن کا منصوبہ بندی اور ترقیات میں کوئی ثانی نہیں۔
بڑی بات یہ کہ اس پالیسی کا اعلان روایتی سیاسی حکومتوں والے کھوکھلے وعدے وعید اور بلند بانگ دعوے نہیں بلکہ زمینی حقائق اور عالمی مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ حکمت عملی پر مبنی ہے۔ اس ماڈل کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی کمیونٹیز کو اس میں شامل کیا جا رہا ہے۔ آمدنی کا 10 فیصد ان لوگوں کو دیا جائے گا جو ان جنگلات کی دیکھ بھال کریں گے تاکہ عوام ماحولیاتی تحفظ کی مہم میں محض تماشائی نہیں بلکہ عملی طور پر شراکت دار بنیں۔ یوں یہ پالیسی ایک ایسے ترقیاتی ماڈل میں بدل گئی ہے جو معاشی خودکفالت، سماجی شمولیت اور ماحولیاتی تحفظ کو یکجا کرتا ہے۔ اس پروگرام کی کامیابی معاشی خودکفالت کے علاؤہ پاکستانی قوم اور عالمی برادری پر بھی احسان عظیم ہوگا۔
ہر روشن منصوبے کی طرح اس تاریخ ساز پالیسی پر عملدرآمد میں بھی کچھ چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔ پہلا چیلنج اس نوخیز کاربن مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال ہے جہاں قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور عالمی سیاست اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ حکومت عالمی ماہرین سے مشاورت کرے گی جبکہ زیادہ پائیدار نتائج کیلئے میرا مشورہ ہے کہ حکومت عالمی مارکیٹ کے رجحانات پر نظر رکھنے کیلئے باقاعدہ تحقیقی سیل قائم کرے۔ دوسرا بڑا چیلنج ڈبل کاؤنٹنگ ہے یعنی ایک ہی کاربن کریڈٹ کا دوہرا دعویٰ جس سے عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس کا حل بین الاقوامی معیارات کے مطابق شفاف رجسٹری نظام اپنانا ہے جس میں متذکرہ سیل فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔
تیسری بڑی رکاوٹ وفاقی حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ بھی ہے جو اس صوبائی اقدام کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ بہتر ہے کہ وفاق اس ضمن میں خیبرپختونخوا حکومت سے مخلصانہ تعاون کرکے اپنی ساکھ بھی بہتر بنائے۔ اس کا حل ایک قومی سطح کے فریم ورک کی تشکیل بھی ہے جس میں آمدنی کی تقسیم، اہداف کا تعین اور بین الصوبائی ہم آہنگی کا جامع احاطہ ہو۔
پالیسی کی شفافیت اور عوامی اعتماد کیلئے آمدنی تقسیم کا واضح ڈھانچہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ مجوزہ طور پر 70 فیصد آمدنی خیبرپختونخوا حکومت، 20 فیصد وفاقی حکومت اور 10 فیصد مقامی کمیونٹیز کو دی جائے گی۔ اس نظام کی نگرانی کیلئے ایک آزاد آڈٹ ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے تاکہ اعتماد کی فضا قائم رہے اور بدعنوانی کا راستہ روکا جا سکے۔
صوبائی حکومت کی یہ پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ خیبرپختونخوا ایک ایسے ماحول دوست، باوقار اور باوسیلہ پاکستان کی جانب گامزن ہے جو آنے والی نسلوں کیلئے بھی امید کی کرن ہے۔ اگر بروقت اقدامات، شفاف نظام اور قومی یکجہتی برقرار رہی تو خیبرپختونخوا کی یہ کاربن کریڈٹ پالیسی نہ صرف مقامی سطح پر ترقی اور خودکفالت کی نئی راہیں کھولے گی بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک ماحولیاتی رہنما کے طور پر بھی سامنے لائے گی۔ دیکھا جائے تو ایک طرف ماضی میں حکمران جماعتوں کے قصے زبان زد عام ہیں کہ کیسے اس غریب قوم کا سرمایہ مختلف ذرائع سے بیرون منتقل کیا گیا تو دوسری طرف علی امین گنڈاپور کی زیرقیادت موجودہ صوبائی حکومت کا یہ رنگ بھی ملاحظہ ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت نہ صرف ماحولیات بہتر بنا کر پاکستان کا سافٹ امیج دنیا پر آشکارا کر رہی ہے بلکہ کاربن پالیسی اپنا کر بیرون ملک سے زرمبادلہ کمانے اور قومی معیشت مستحکم بنانے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ فرق تو صاف ظاہر ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos