فائل فوٹو
فائل فوٹو

بنگلہ دیشیوں کو پاکستان سے یورپ بھجوانے والا گروہ بے نقاب

عمران خان :

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ ایک منظم اور منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جس میں خواب، امیدیں اور مستقبل کی تلاش کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نیٹ ورک کی سرگرمیاں ملک کے مختلف علاقوں، خصوصاً بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بارڈر زونز میں شدت سے جاری ہیں۔ حالیہ کارروائی میں بنگلہ دیشی افراد کے قافلوں کو پاکستانی وزٹ ویزوں پر بلا کر بلوچستان کے راستے ایران اور ترکی سے یورپی ممالک بھجوانے والے نیٹ ورک کا سراغ لگایا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف متعدد کامیاب کارروائیاں کی ہیں، تاہم یہ مسئلہ تاحال پاکستان کے لیے ایک سنجیدہ داخلی و عالمی چیلنج بنا ہوا ہے۔

گزشتہ روز ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل تفتان نے ایک بڑی کارروائی میں 20 غیر ملکیوں کو گرفتار کیا، جن کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ یہ افراد قانونی وزٹ ویزے پر پاکستان میں داخل ہوئے تھے، لیکن ان کا مقصد ماشکیل بارڈر ضلع چاغی کے راستے غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہونا تھا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق یہ کارروائی فرنٹیئر کور کی مدد سے عمل میں آئی۔ گرفتار افراد سے جب قانونی دستاویزات طلب کی گئیں تو وہ کوئی تسلی بخش وضاحت پیش نہ کر سکے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق گرفتار ملزمان میں بابل حسین، میاں عارف، شوپان، عبداللہ، محمد کابل، مہدی حسن الامین، ساغر حسین، نجم الحسین، حبیب الرحمٰن، انارالحق، روجب علی، صوجب علی، اسد، روبل میاں، عرفات علی، ایمن اکونڈا اور شبیر علی شامل ہیں۔ ان کے خلاف باقاعدہ تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ان کے پاکستان میں قیام، رابطوں اور ممکنہ سہولت کاروں کی کھوج لگائی جا رہی ہے۔

ذرائع کے بقول انسانی اسمگلنگ کا یہ نیٹ ورک عام طور پر نوجوانوں کو نشانہ بناتا ہے، جو دیہی یا پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو یورپ میں روشن مستقبل، زیادہ آمدن اور بہتر زندگی کے خواب دکھا کر لاکھوں روپے بٹورے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جعلی ویزے، جعلی سفری دستاویزات، اور بلوچستان کے دشوار گزار غیر قانونی راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ماشکیل، پنجگور، چاغی اور تربت کے راستے عام طور پر ایران اور پھر ترکی و یونان کے ذریعے یورپ تک پہنچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اسی روٹ کو عام زبان میں ’’ایزی یورپ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایف آئی اے کی دستاویزات کے مطابق سال 2022ء سے 2025ء کے درمیان انسانی اسمگلنگ کے 6 ہزار 400 سے زائد کیس رجسٹر کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 2 ہزار 300 سے زائد افراد گرفتار کیے گئے، جن میں 400 سے زائد منظم نیٹ ورک چلانے والے مرکزی ایجنٹس بھی شامل تھے۔ بیشتر گرفتاریاں تفتان، چمن اور کراچی ایئرپورٹ سے عمل میں آئیں، جہاں سے غیر قانونی سفری کوششیں کی جا رہی تھیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ نہ صرف غیر قانونی نقل مکانی بلکہ منی لانڈرنگ، منشیات اور دہشتگردی جیسے جرائم سے بھی جڑی ہوتی ہے، جس سے اس مسئلے کی سنگینی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے انسداد کے حوالے سے ’’ٹیر 2 واچ لسٹ‘‘ میں رکھا گیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ اگرچہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے، مگر ابھی عالمی معیار کے مطابق مکمل عملدرآمد درکار ہے۔

اس خطرناک نیٹ ورک کے خاتمے میں متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر، ملزمان کی آسان ضمانتیں اور بعض مقامی مافیاز کا سیاسی و قبائلی اثر و رسوخ، ایف آئی اے جیسے اداروں کی کوششوں کو محدود کر دیتا ہے۔ ساتھ ہی عوامی سطح پر آگاہی کی شدید کمی بھی ان مافیاز کو تقویت دیتی ہے۔ اکثر متاثرہ خاندان غربت اور بے روزگاری کے مارے ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی کی جمع پونجی لٹا کر اپنے بچوں کو ’’باہر‘‘ بھجوانے کا خواب دیکھتے ہیں۔

ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے سدباب کے لیے موثر بارڈر مینجمنٹ، ایف آئی اے اور بارڈر فورسز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا، عدالتی نظام کو تیز تر بنانا، اور نوجوانوں کو مقامی سطح پر روزگار کے بہتر مواقع دینا ضروری ہے۔ دیہی علاقوں میں آگاہی مہمات بھی اس ناسور کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار بن سکتی ہیں۔ ذرائع کے بقول انسانی اسمگلنگ پاکستان میں ایک سنگین انسانی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ صرف قانونی یا سیکیورٹی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی جانوں اور ملکی وقار کا معاملہ ہے۔ جب تک اس کے اسباب کا جڑ سے خاتمہ نہیں ہوتا، اس مکروہ دھندے کی زنجیر ٹوٹنا ممکن نہیں۔