میگزین رپورٹ:
جدید تحقیق میں اونٹ کے آنسو شفا بخش قرار دیئے گئے ہیں۔ عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق سائسندانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اونٹ کے آنسو سے سانپوں کے 26 اقسام کے زہر کو بے اثر کرنے کا تریاق تیار کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں فرانسیسی، بھارتی اور اماراتی محققین دبئی کی سینٹرل ویٹرنری ریسرچ لیبارٹری میں تحیق آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ۔
رواں برس ہی اونٹ کے آنسو سے بنی اینٹی وینم ویکسین تیار کرلی جائے گی اور اس ویکسین کی قیمت مارکیٹ میں دستیاب اینٹی باڈیز ویکسین کئی گنا کم ہوسکتی ہے۔ یہ معجزاتی طریقہ علاج کوئی اچانک یا حادثاتی دریافت کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے کئی سال کی محنت اور ریسرچ شامل ہے۔
دبئی کی سرکاری لیبارٹری میں اس تہلکہ خیز ریسرچ نے میڈیکل کی دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ دبئی کے ریسرچ لیب میں محققین کی طرف سے کئے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اونٹ کے آنسو سانپ کے زہر کو بے اثر کرنے میں موثر صلاحیت پیش کررہے ہیں۔ رواں ماہ دبئی میں سینٹرل ویٹرنری ریسرچ لیبارٹری (سی وی آر ایل) کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں اونٹ کے آنسوؤں اور خون کے پلازما سے تیار کردہ اینٹی باڈیز کا تجربہ کیا گیا۔
اس تحقیق میں ثابت کیا گیا ہے کہ اونٹ سے حاصل ہونے والے چند مرکبات 26 اقسام کی سانپوں کے زہر کا تریاق کرنے کیلئے مؤثر ہیں۔ اونٹ کے آنسوؤں اور خون کے پلازما میں پائے جانے والے کیملائڈ اینٹی باڈیر (Camelid Antibodies ) میں اس زہر کے تریاق میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں۔ ادارے نے اپنے تجربات میں اونٹ کو مختلف خطرناک سانپوں کے زہر سے مدافعتی بنایا۔ اس کے بعد ان سے حاصل ہونے والی اینٹی باڈیز کو جب زیرِ تحقیق لایا گیا تو یہ سانپ کے زہرکا تریاق کرنیمیں معاون ثابت ہوئیں۔
تجرباتی بنیاد پر اس ٹیکے کا استعمال گھوڑے پر کیا گیا۔ ڈسے ہوئے گھوڑے پر جب اینٹی باڈیز کا آزمائش کیا گیا تو اس کا اثرواضح تھا۔ سانپ کے زہر سے پیدا ہونے والے نکسیر اور خون جمنے سے روکنے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ تحیق کے مطابق اونٹوں کا مدافعتی نظام انتہائی طاقتور سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اونٹ کے آنسوؤں میں قدرتی طور پر موجود immunoglobulin قسم کے اینٹی باڈیز ایسے سخت موسمی اور ماحولیاتی حالات میں بھی فعال رہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ زہر کے خلاف نہایت مؤثر ثابت ہوئے۔
اس تحقیق کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی مل رہی ہے اور اسے ایک خاموش وبا کیلئے بڑا علاج سمجھا جارہا ہے جو ہر سال ہزاروں جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔د نیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک بالخصوص افریقہ اور ایشیا میں سانپوں کا کاٹنا ایک بڑا مسلئہ بنا ہوا ہے۔ عموماً سانپوں کے کاٹنے کا شکار کمزور طبقے کے افراد ہوتے ہیں جس میں ماہی گیر، کسان، چرواہے وغیرہ شامل ہیں جو جو پہلے ہی مشکل حالت میں گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ سانپ کا اینٹی باڈیز کیلئے انہیں شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے یا غربت کی وجہ سے وہ یہ دوا خریدنے کے قابل نہیں ہوتے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 54 لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے کا شکار ہوتے ہیں۔ جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ 4 لاکھ افراد مکمل معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہاتھ یا پاؤں کا کٹنا، بینائی کا چلا جانا اور جسمانی ٹشوز کو شدید نقصان پہچنانا شامل ہے۔ سانپ کے زہر سے سب سے زیادہ متاثر بھارت ہوا ہے جہاں ہر سال 58,000 اموات ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اونٹ کے آنسو سے بنا اینٹی ڈوٹ دنیا بھر میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اس سے موجودہ مہنگے اور نایاب سیرم کا سستا اور قدرتی متبادل مل سکتا ہے۔ دوسری جانب بھارتی ریاست راجستھان میں اونٹی کے دودھ کے بعد اونٹوں کا آنسو بھی کسانوں اور چرواہوں کیلئے منافع بخش کارروبار بنا ہوا ہے۔
راجستھان کے بیکانیر شہر میں واقع نیشنل ریسرچ سینٹر آن کیمل نے مقامی کسانوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جو کسان اونٹ کے آنسوؤں اور خون کے نمونے پیش کررہے ہیں انہیں اچھا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ این آر سی سی یہ سیمپلز فارماسیوٹیکل کمپنیاں، بشمول سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور دیگر پرائیویٹ دوا ساز فکٹریوں کو فراہم کررہی ہے۔ تخمینوں کے مطابق، کسان ہر ماہ اضافی پچاس سے ایک لاکھ روپے اونٹ کے آنسو کے ذریعے کما رہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos