خانہ جنگی کی کیفیت نے خود ناجائز ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں,، فائل فوٹو
 خانہ جنگی کی کیفیت نے خود ناجائز ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں,، فائل فوٹو

نیتن یاہو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ پلان کا دشمن قرار

میگزین رپورٹ :

صہیونی ریاست کی تحریک کے سربراہ تھیوڈور ہرزل کے نظریات پر مبنی ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے منصوبے کا موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی تجزیہ کاروں نے گریٹر اسرائیل کا منصوبے کا بیڑا غرق کرنے کا براہ راست ذمہ دار نیتن یاہو اور اس کی سیاسی قیادت کو قرار دے دیا ہے۔ غزہ پر قبضہ، شام کے چار حصوں میں تقسیم، مصر کے صحرا سینائی، مغربی کنارے، لبنان اور اردن کے کچھ حصے ہتھیانا سمیت فلسطینی آبادی کو ہجرت پر مجبور کرنا خام خیالی پر مبنی پلان بن چکا ہے۔

سیاسی مقاصد کیلئے اس پلان کی قابل از وقت نقاب کشی نے غیر معینہ مدت تک اس کا حصول ناممکن بنادیا ہے۔ جبکہ اسرائیل کے اندر خانہ جنگی کے حالات اور بڑھتے عدم تحفظ کی فضا نے اسرائیل کے اپنے ہی وجود پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ ہارٹیز اخبار کے مطابق صہیونی وزرا کی جانب سے حالیہ غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان محض آبادکاروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کا ایک حصہ ہے، تاہم حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ صہیونی آباد کارروں کو نیل سے فرات تک پھیلے ہوئے اسرائیل خواب محض اس لئے فروخت کیا جاتا ہے۔ تاکہ متشدد وزرا حکومت کا حصہ بنے رہیں۔

اس خواب کی وجہ سے گزشتہ 22 برسوں کے دوران مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں یہودی آباد کارروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آخری مردم شماری میں مغربی کنارے میں آباد کاروں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہوگئی۔ جبکہ مشرقی یروشلم میں ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی۔ البتہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور گریٹر اسرائیل کے احساس پلانز لیک ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے جس پر امریکہ کو شدید تشویش لاحق ہے۔ ابرہام معاہدہ، سبوتاژ ہونے کی وجہ سے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا منصوبہ مزید پندرہ سے بیس برس پیچھے جاچکا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تقریباً آٹھ دہائیوں کے باوجود اسرائیل خطے میں پائیدار سلامتی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی خارجہ، ملکی اور فوجی پالیسیاں آباد کار نو آبادیاتی منطق پر مبنی ہیں جو اسے طویل مدت میں ناقابل برداشت بناتی ہیں۔ موجود صہیونی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث مشرق وسطی میں ایک نیا اتحاد پروان چڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ترکی، مصر اور سعودیہ جیسے پرو امریکن ممالک اب تیزی سے ایران، روس اور چین کے اتحاد کا حصہ بننے کی لابنگ کررہے ہیں۔ یہ صورتحال ممکنہ طور پر مغربی بلاک سے آگے بڑھ کر نئے اتحاد کی تلاش پر مجبور کرچکی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں چین ایک قابل عمل امریکہ کا متبادل بن سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اسرائیل کا اسٹریٹجک اتحادی نہیں ہے۔ چین کا بڑھتا اثروسوخ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ اس سے یقینی طور پر علاقائی بالادستی قائم کرنے کی صہیونی خواہش کو نقصان پہچنے گا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی نسل کشی کی پالیسیوں نے یورپ اور شمالی امریکہ سمیت دنیا بھر میں رائے عامہ میں گہرا تبدیلی پیدا کی ہے۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی پشت پناہی کرنا اب اتحادیوں کیلئے بہت ہی مشکل بن چکا ہے۔

اگر یہ رجحانات جاری رہے تو اسرائیل بالآخر مغرب میں قابل بھروسہ حمایت ختم کر سکتا ہے اور اپنے مالی اور فوجی فائدے سے محروم ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب شام کو ڈیوڈ کوریڈور کے ذریعے چار حصوں میں تقسیم کرنے کے پلان میں بھی اسرائیل کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ترکی شامی حکومت کو برقرار رکھنے اور اسرائیلی منصوبے ناکام بنانے کیلئے ایران کو ایک مرتبہ پھر راہداری فراہم کرنے کے آپشن پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے۔ جس سے لبنان میں حزب اللہ جیسی تنظیم کو دوبارہ طاقتور ہونے کا موقع میسر ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ ترکیہ، شام کی موجودہ حکومت کا ایک بڑا حامی ہے اور وہ دمشق میں طاقت کے ایک مرکزی محور کی حمایت کرتا ہے۔ ترکیہ، شام میں ڈی سینٹرلائزڈ یا وفاقی طرزِ حکومت کا مخالف ہے۔