امت رپورٹ :
میگا کرپشن کیس میں سزایافتہ عمران خان کو جیل سے رہائی دلانے کی خاطر امریکہ کی یاترا کرنے والے ان کے دونوں بیٹوں کو ناکامی کا سامناہے۔ قاسم اور سلیمان سے اب تک ہونے والی ملاقاتوں میں سوائے تسلیوں کے کچھ اور نہیں ملا ہے۔
دلچسپ امر ہے کہ ان دونوں کو امریکہ بلانے والے بھی وہی کردار ہیں جنہوں نے اس سے قبل یہ کہہ کر دیوتا (عمران) کے پجاریوں کو دو برس تک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا کہ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد سب سے پہلا اعلان عمران خان کی رہائی میں مدد سے متعلق کریں گے۔ اس کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرکے امریکی لابنگ اور پی آر فرموں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کے بدلے میں چند گنے چنے پاکستان مخالف یہودی امریکی ارکان کانگریس سے عمران خان کے حق میں کچھ بیانات اور ایکس پوسٹیں کرادی گئیں۔ لیکن ٹرمپ نے عمران کی رہائی کی بات تو کیا کرنی تھی، الٹا فیلڈ مارشل کو عشائیہ پر بلا لیا۔ کسی کلٹ زومبی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ امریکہ میں بیٹھے ان کرداروں سے پوچھتا کہ لابنگ اور پی آر فرموں پر پارٹی کے نام پر جمع کروڑوں روپے چندہ کیوں ضائع کیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں دو برس تک جھوٹے آسرے کیوں دیے گئے؟ لیکن شائد ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنا کچھ لوگوں کا مقدر ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ان ہی کردار وں نے عمران خان کے بیٹوں کو بھی اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ جی ہاں، امریکہ میں قاسم اور سلیمان کی میزبانی اور چلے ہوئے کارتوسوں سے ملاقات کا انتظام امریکہ میں مقیم قادیانی ڈاکٹر آصف محمود اور عمران خان کے رشتے دار سجاد برکی نے کیا، جو اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی کے سپوٹرز کو سہانے سپنے دکھاتے رہے ہیں۔ قاسم اور سلیمان کی ایک ملاقات رچرڈ گرینل سے بھی کرائی گئی جو صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ہیں۔ اس سے قبل عمران خان کی رہائی کے حق میں ٹوئٹ کرنے پر پی ٹی آئی کے حامیوں نے انہیں ’’مائی باپ‘‘ بنا لیا تھا۔ لیکن گرینل نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ عمران کے بیٹوں سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے ایکس پر جو پوسٹ کی، اس کا لب لباب بھی یہی ہے کہ ’’میرے پر نہ رہنا، رام بھلی کرے گا‘‘۔ ہم جنس پرست گرینل نے پوسٹ میں لکھا ’’میرے دوستوں کیلیفورنیا میں خوش آمدید۔ مجھے آج آپ کے ساتھ گھومنا پسند آیا۔ آپ کو مضبوط رہنا چاہیے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو سیاسی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔‘‘
اس پوسٹ کے نیچے جہاں پی ٹی آئی سپوٹرز نے ایک بار پھر گرینل سے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات کرنے کی منتیں کی ہیں، وہیں ان میں سے بہت سوں نے یہ طعنے بھی دئیے ہیں کہ وہ سوائے لفاظی کے عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ جبکہ کئی سوشل میڈیا صارفین نے گرینل، عمران خان اور ان کے بیٹوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فیصل پاشا نامی ایک صارف نے لکھا ’’رچرڈ گرینل ! کیا یہ آپ کا احساسِ انصاف ہے؟ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو دہشت گرد کہا گیا اور انہیں سزائیں دلائی گئیں۔ جبکہ 9 مئی کو پاکستان میں فوجی تنصیبات اور قومی عمارتوں کو آگ لگانے والوں کی حمایت کرتے ہو؟ یہ صرف منافقت نہیں، یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ آپ جیسے غیر ملکی عناصر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پرتشدد فسادیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے عدالتی، انتظامی اور خود مختاری کے معاملات میں براہ راست مداخلت ہے۔‘‘ اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ سعد قیصر نے کمنٹ کیا ’’بزدل اپنے والد کی رہائی میں مدد کرنے پاکستان آنے کے بجائے امریکہ چلے گئے۔ مزاحیہ بات یہ ہے کہ کم عقل سپوٹرز اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ عمران کی برطرفی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا، پھر بھی ان کے بچے اسی امریکہ سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔‘‘
قاسم اور سلیمان کی امریکی رکن کانگریس بریڈ شرمین سے بھی ملاقات کرائی گئی۔ بریڈ شرمین کے پاکستان مخالف خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ وہ ہر فورم پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کا دفاع کرتا ہے۔ سزایافتہ عمران خان کے دونوں بیٹوں کو رکن کانگریس، جو ولسن سے بھی ملوایا گیا۔ موصوف بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش رہتا ہے۔ جو ولسن نے چند ماہ پہلے ایک اور رکن کانگریس کے ساتھ مل کر امریکی ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کیا تھا، جس میں عمران خان سے نام نہاد زیادتیوں اور انسانی حقوق کی نام نہاد خلاف ورزیوں پر پاکستانی ریاستی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان دونوں امریکی قانون سازوں کو غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کیا جانے والا قتل عام نظر نہیں آتا، البتہ پاکستان میں ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘‘ کی فکر ستا رہی ہے ۔
قاسم اور سلیمان کی ملاقاتوں کی اندرونی کہانی سے واقف امریکہ میں موجود پی ٹی آئی سے تائب ہونے والے ایک ذریعہ کے بقول، یہ دو چار ارکان کانگریس پہلے بھی عمران خان کی رہائی کے بارے میں پوسٹیں کرتے رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا رونا بھی روتے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ یہ عمران خان کی محبت میں نہیں بلکہ پی ٹی آئی نے لاکھوں ڈالر کے عوض جن لابنگ اور پی آر فرموں کو ہائر کیا، ان کے کلائنٹ کے طور پر کرتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کی جیب سے چندے کی مد میں پیسہ نکلوانے والا سجاد برکی بھی جانتا ہے کہ سوائے بیان بازی اور دو چار بل پیش کرنے سے زیادہ ان ارکان کانگریس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تاہم اس سے پی ٹی آئی کارکنوں اور حامیوں کو رام کرنے یا بے وقوف بنانے میں مدد ملتی ہے۔
اس ذریعے کے مطابق قاسم اور سلیمان سے ملاقات کرنے والے ان دو تین ارکان کانگریس نے ماضی کی طرح انہیں بھی طفل تسلیاں دے کر روانہ کردیا اور چند پوسٹیں کردیں۔ تاہم عمران خان کی رہائی کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ اور نہ کوئی لائحہ عمل دیا۔ ویسے بھی یہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اس نوعیت کی کوئی یقین دہانی کراسکیں۔ یوں قاسم اور سلیمان کا دورہ امریکہ رائیگاں گیا ہے۔ الٹا دونوں کو سوشل میڈیا پر مختلف طنزیہ پوسٹوں کا سامنا ہے۔ کسی نے سور کے گوشت سے بنی ڈش کھانے کا طعنہ دیا تو کسی نے کہا کہ وہ اپنے والد کی رہائی میں مدد کے لیے ایسے صہیونی امریکیوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کے ہمنوا ہیں۔
ادھر اسلام آباد میں مقیم ایک باخبر ذریعے نے قاسم اور سلیمان کی امریکہ یاترا کو بے کار کی مشق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کی اعلیٰ شخصیات اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقات میں عمران خان کا سرسری ذکر ہوا تھا۔ ٹرمپ اس بات پر کنوینس ہیں کہ عمران خان کو سزا عدالتوں نے سنائی۔ اور یہ کہ امریکہ پاکستان کے عدالتی معاملات میں مداخلت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔‘‘یہی اس رپورٹ کی پنچ لائن ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos