فائل فوٹو
فائل فوٹو

بچوں کی پیدائش میں دانستہ وقفہ شرعاً ناجائز قرار

محمد اطہر فاروقی:

علمائے کرام نے رزق و معاش میں تنگی کی وجہ سے پیدائش میں وقفہ شرعاً ناجائز قرار دیا ہے۔ تاہم ان کے بقول بیماریوں کی وجہ سے بچوں کی پیدائش میں عارضی وقفہ کیا جا سکتا ہے۔ انٹر نیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی کے فتوے کے مطابق دوسرے یا تیسرے بچے کی پیدائش میں ماں کی جان کو خطرہ ہو یا صحت کے مسائل کا اندیشہ ہو تو 120 دن سے پہلے حاملہ خاتون ابارشن (اسقاط) بھی کرواسکتی ہے۔ کیونکہ 120 دن کے بعد بچے کے وجود میں روح کو ڈالا جاتا ہے۔

’’امت‘‘ نے یہ جاننے کیلئے کہ ایک بچے کی پیدائش کے بعد دوسرے بچے کی ولادت یا حمل کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے، مفتیان کرام سے رابطے کیے تو اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر محمد مفتی زبیر نے بتایا کہ آبادی کو کنٹرول کرنا پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس میں شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ روزی، رزق و معاش کا مالک تنہا اللہ ہے اور مسلمانوں کا یہی ایمان ہے۔ اللہ رب العزت کو مالک اور رازق ماننا فرض عین ہے۔

قرآن مجید میں آیا ہے (ترجمہ) ’’اپنے بچوں کو فکر و فاقہ اور مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں، ہم تم کو بھی رزق دیتے ہیں۔ (سورۃ انعام آیت نمبر 151)۔ مفتی زبیر نے کہا ’’ایک بچے کی ولادت کے بعد اگر اگلی ولادت میں جان کا خطرہ ہو، یا عورت کو ناقابل برداشت تکلیف کا اندیشہ ہو، یا شدید کمزوری کا اندیشہ ہو یا پہلے بچے کی پرورش پر دودھ کی کمی کی وجہ سے بیماری یا کمزوری کا خدشہ ہو، یا ڈاکٹرز کے مطابق ماں اور بچے کو کسی قسم کی شدید تکلیف کا اندیشہ ہو، ایسی صورت میں حاملہ ہونے سے بچنے کیلئے کسی بھی قسم کی عارضی تدابیر اختیار کرنا جائز ہے۔ شریعت اس بات کا بالکل تقاضا اور مطالبہ نہیں کرتی کہ بیماری، شدید مسائل، زندگی کو لاحق خطرات اور ناقابل برداشت تکلیف ہونے کے باوجود بچوں کے درمیان وقفہ نہ دیں۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ ’’ہم عزل کرتے تھے۔ یعنی مناسب وقفہ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت میں بھی، جبکہ اس وقت قرآن مجید نازل ہو رہا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دراصل ہمیں آبادی میں اضافے کے حوالے سے درست شرعی مسئلے کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور اسی حوالے سے شعور و آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے‘‘۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا ’’پاپولیشن میں اضافے کے حوالے سے جو معاشرے میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ اس موضوع پر سرکاری اور عوامی سطح پر بھی خرابیاں موجود ہیں۔ سرکاری سطح پر شریعت کے حساب سے کچھ چیزیں درست نہیں۔ جب بھی حکومت کی جانب سے پاپولیشن کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے تو حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس مسئلے کو رزق، روزگار اور معاش کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ سرکاری کمپین اور میڈیا پر یہ ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں کہ کھلا نہیں سکتے تھے تو پیدا کیوں کیا۔ یا بچے دو ہی اچھے، جب کھلانے کو روٹی آٹا ہی نہیں تو بچے کیوں پیدا کیے؟ وغیرہ وغیرہ بولا جاتا ہے۔

ظاہر ہے ایسی گفتگو کے بعد یہ کمپین موثر ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ آپ کی یہی بات سن کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ روزی روٹی کا مالک تو اللہ تعالی ہے تو یہ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ پھر ٹی وی پر کمپین چلانا اور باتیں کرنے سے یہ معاملہ دورز دراز علاقوں میں موجود مائوں تک پہنچتا ہی نہیں۔ جن تک یہ معاملہ پہنچتا ہے، ان کا یہ مسئلہ ہی نہیں۔ اس کا سب سے صیح اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ علمائے کرام، مفتیان کرام، فتویٰ سینٹرز اور مساجد سے اصل شرعی حیثیت سے عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ یہ معاملہ ہر گائوں ،گوٹھ تک با آسانی پہنچ جائے۔ عوامی سطح پر سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بچوں کے درمیان وقفے کے حوالے سے اصل شرعی حیثیت کا انہیں علم نہیں۔

انٹر نیشنل اسلامک اسکالرز کے فتوی کے حوالے سے انہیں آگاہی نہیں دی جاتی۔ عوامی سطح پر جب بھی بچوں کے درمیان وقفے کی بات کی جائے تو یہی جواب ملتا ہے کہ ہم نے وقفہ نہیں کرنا۔ اگر ہم وقفہ کریں گے تو گناہ گار ہوں گے اور یہ کام تو کافروں، یہودیوں اور انگریزوں کا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ، عورت مر رہی ہے، جان کو خطرہ ہے، زچہ بچہ معذور یا کمزور ہو رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ وقفہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس لئے شرعی پوزیشن کو دونوں صورتوں میں واضح کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

مفتی زبیر کے بقول پاکستان کا اصل مسئلہ عورت کی صحت ہے اور اسی صحت پر شریعت نے بچوں کے درمیان وقفے کی اجازت دے رکھی ہے۔ نیز مفتیان کرام نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ ایک بچے کی پیدائش کے بعد دوسرے کی ولادت کیلئے اگر آپریشن ضروری ہو اور آپریشن سے آپ کو مسائل کا سامنا ہو تو بھی آپ وقفہ کر سکتے ہیں۔ یہ شرعی حیثیت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (OIC) کے ماتحت ایک تنظیم انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی (مجمع الفقہ اسلامی) ہے۔ اس کا ہیڈ آفس جدہ میں ہے اور اس تنظیم میں دنیا بھر کے اسکالر موجود ہیں۔ یہ تنظیم جدید مسائل پر قرآنی اور شرعی تحقیق پیش کرتی ہے۔

فقہ اکیڈمی نے مذکورہ تمام مسائل کا ذکر کرتے ہوئے یہ فتویٰ بھی دیا ہے کہ ایسے میں وقفہ کرنا تو اپنی جگہ، البتہ اس صورتحال میں 120 دن سے پہلے پہلے ابارشن کی بھی اجازت ہے۔ کیونکہ 120 دن کے بعد بچے کے وجود میں روح کو ڈالا جاتا ہے۔ لہذا اعذار اور شدید ضرورت کی وجہ سے عارضی وقفہ کی شرعا اجازت ہے۔ تاہم یہ تصور کہ بچی پیدا ہوگی تو ناک کٹ جائے گی یا بچوں کے بغیر آزاد زندگی گزارنے میں خلل پیدا ہوگا یا بغیر عذر کے کم بچے پیدا کیے جائیں یا تولید کی صلاحیت عورت یا مرد سے مکمل طور پر ختم کردینا، تو یہ شرعا جائز نہیں۔ اس سے احتراز لازم ہے‘‘۔

جامعہ العربیہ مدینۃ العلم کے مہتمم اور مذہبی اسکالر مفتی محمد حماداللہ مدنی نے ایک بچے کی پیدائش کے بعد دوسرے بچے کی ولادت کے درمیان وقفے کے حوالے سے بتایا کہ شریعت میں کوئی تحدید نہیں ہے، کوئی حد نہیں اور اس مسئلے پر کوئی خاص حکم بھی نہیں کہ اتنے دن یا اتنے ماہ یا اتنے سال وقفہ ضروری ہے۔ یہاں تک کہ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب عزل کرنا شروع کیا، تو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عزل کیوں کرتے ہو؟۔ تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: عزل اس لیے کرتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں ابھی اولاد چھوٹی ہے یا اولاد نہ ہو، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس روح کو دنیا میں آنا ہے، تم 100 رکاوٹ بھی اختیار کر لو وہ روح دنیا میں ضرور آئے گی‘‘۔

فقہا اس سے یہ بات اخذ کرتے ہیں کہ حضورؐ نے منع نہیں فرمایا کہ آپ عزل نہ کیا کرو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عزل جائز ہے۔ اسی طرح 21 ویں پارے میں سورہ لقمان کی آیت نمبر 14 میں اللہ تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا۔ یہاں بھی دودھ پلانے کی جو مدت ہے، وہ دو سال ہے۔ ارشاد فرمایا ’’وہ میرا بھی شکریہ ادا کریں اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کریں‘‘۔ یہ لقمان حکیم اپنے بیٹے کو جب نصیحت کر رہے تھے۔ اس وقت کا واقعہ ہے۔ تو یہاں پر بھی فصال دو سال ہے۔ یعنی چھ سے نو ماہ حمل کے ہوگئے اور اس کے بعد دو سال کا وقفہ۔ اتنا وقفہ ہونا چاہیے۔

26 ویں پارہ سورہ الاحقاف آیت نمبر 15 میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ہم نے انسان کو تاکید کی اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی‘‘ اور پھر ماں کی تعریف میں فرمایا ’’جو اس کی ماں ہے، وہ پیٹ میں مشقت کو اٹھاتی ہے پھر اس کو جنتی ہے‘‘۔ تو یہ 30 مہینے یعنی ڈھائی سال تو کم سے کم مدت ہے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ کوشش کریں کہ دودھ پلانے کی مدت یعنی دو سال تک دوسرا بچہ نہ ہو۔ لیکن کوئی حد بندی خاص نہیں۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ایسی خواتین جو بچے زیادہ جنتی ہوں، ان سے شادی کرو۔ قیامت کے دن میں کثرت امت پر فخر کروں گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اتنے زیادہ بچے پیدا کریں کہ عورت کے بیماری اور عورت کی خرابی صحت کا کوئی خیال نہ رکھیں۔ شریعت کسی کیلئے تکلیف کا سبب نہیں بنتی، راحت کا سبب بنتی ہے۔