امت رپورٹ :
الجھن کا شکار تحریک انصاف تاحال یہ فیصلہ نہیں کرسکی ہے کہ پانچ اگست کو احتجاج کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ بتایا گیا ہے کہ احتجاج کے لائحہ عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے آج جمعرات کو ایک اہم اجلاس پشاور میں ہورہا ہے۔ تاہم واقفان حال کے بقول اجلاس میں کسی دھماکہ خیز فیصلے کا امکان نہیں۔ اگر دکھاوے کے لیے ایسا کوئی اعلان کر بھی دیا گیا تو وہ محض لفاظی کی حد تک ہوگا، عملی نہیں۔
چند روز پہلے عمران خان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے پانچ اگست کی تحریک کا مومینٹم نظر نہیں آ رہا۔‘‘عمران خان کو اس تحریک کا مومینٹم نظر نہ آنے کا بنیادی سبب بدترین اندرونی اختلافات اور دھڑے بندی تو ہے ہی، پی ٹی آئی کی خوف زدہ مرکزی قیادت اور سہمے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کا گریزاں ہونا بھی اس کا بڑی وجہ ہے۔
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق لگژری لائف کا مزہ اٹھانے والے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت پہلے بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ احتجاج کے لئے ڈنڈے اور شیل کھائیں یا پھر جیل یاترا کریں۔ اس کی بڑی مثال چھبیس نومبر کا ناکام احتجاج تھا، جب پی ٹی آئی قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد اول تو احتجاج کا حصہ ہی نہیں بنی اور جو آئے وہ بعد میں کارکنوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ جبکہ ایک تعداد ایسی بھی تھی، جس نے فرمائشی گرفتاریاں دیں، تاکہ احتجاج میں شریک ہونے سے بچ سکیں۔
ان ذرائع کے بقول اب پارٹی قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ ہے۔ اس کا بڑا سبب حال ہی میں 9 مئی کے کیسز میں سنائی جانے والی طویل سزائیں ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی ہے۔ شنید ہے کہ 9 مئی کے کیسز میں مزید بیس سے بائیس ارکان کو سزائیں اور ان کی نااہلی متوقع ہے۔ اس کو لے کر مرکزی قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت نہیں چاہتی کہ دوبارہ کوئی مس ایڈونچر ہو جائے۔ اس کے نتیجے میں جیل یاترا کے ساتھ پانچ برس کی نااہلی بھی ہوجاتی ہے تو وہ موجودہ سِیٹ اور اگلا الیکشن لڑنے سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہی وجہ ہے کہ مرکزی قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت پانچ اگست کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ یا دھرنے کے بجائے اپنے اپنے حلقوں میں ہومیوپیتھی ٹائپ احتجاج پر زور دے رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول آج پشاور میں متوقع مشاورتی اجلاس میں بھی مرکزی قیادت اور ارکان کی اکثریت یہی موقف اختیار کرسکتی ہے۔ یہ اجلاس پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے طلب کیا ہے، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا، جنید اکبر، عمر ایوب اور دیگر قائدین شرکت کریں گے۔ اجلاس میں آئندہ ممکنہ احتجاج کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور کیا جائے گا اور اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ احتجاج اسلام آباد کی جانب مارچ کی صورت میں کیا جائے یا صوبائی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے اسلام آباد کی طرف مارچ جیسے کسی فیصلے کا امکان کم ہے۔
جہاں ایک طرف پارٹی کے متعدد رہنما کسی بڑے احتجاج کا بھاری پتھر چومنے سے گریزاں ہیں، وہیں پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت میں اختلافات اور تعاون کا فقدان بھی پانچ اگست کے متوقع فلاپ شو کا پتا دے رہا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں احتجاج کی قیادت وہ کریں گے۔ حالانکہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صوبائی صدر جنید اکبر ہیں۔ دونوں کے مابین سرد جنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گنڈا پور صوبے میں احتجاج کی قیادت کریں گے تو جنید اکبر اس سے لاتعلق نہیں تو بیزار ضرور رہیں گے۔
پشاور میں پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے بقول صوبے میں ارکان اسمبلی کی ایک بڑی تعداد گنڈاپور کے ساتھ ہے کہ ان میں سے اکثر کو انہوں نے ہی الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ دلایا تھا۔ تاہم صوبے میں پارٹی کے مختلف تنظیمی عہدے داروں کی اکثریت جنید اکبر کے ساتھ ہے۔
جنید اکبر نے پارٹی کا صوبائی صدر بننے کے بعد پہلا کام یہی کیا تھا کہ اہم اضلاع اور ریجن کے عہدے داران تبدیل کر دئیے تھے۔ کیوں کہ پرانے عہدیداران گنڈاپور کے زیر اثر تھے۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی سابق صوبائی وزیر عاطف خان کو پشاور ریجن کا صدر بنانا تھا۔ جبکہ ایم این اے ارباب شیرعلی کو جنرل سیکریٹری پشاور ریجن نامزد کیا گیا تھا۔ ان دونوں کی گنڈا پور سے چپقلش زبان زد عام ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ پانچ اگست کا احتجاج صوبائی سطح پر ہوگا تو خیبرپختونخوا میں موجود دھڑے بندی کے باوجود گنڈا پور ماضی کی طرح سرکاری مشینری استعمال کرکے تھوڑا بہت شو ضرور کرلیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے مرکز کو کیا فرق پڑے گا؟
ادھر امین گنڈاپور کی جانب سے خیبرپختونخوا میں احتجاج کی قیادت کے اعلان کے دوران پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر نے بھی ایک اجلاس بلایا۔ اجلاس میں جنید اکبر کے ہمنوا صوبائی عہدیداران اور ارکان اسمبلی شریک ہوئے۔ اجلاس کا مقصد پانچ اگست کے احتجاج سے متعلق مشاورت کرنا تھا۔ خیبرپختونخوا میں احتجاج کا کریڈٹ لینے کی دوڑ گنڈاپور اور جنید اکبر کے مابین کسی نئی چپقلش کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
سندھ میں بالخصوص کراچی کے بعض علاقوں اور شاہراہ فیصل پر احتجاج کا رنگ جمتا دکھائی نہیں دے رہا کہ حلیم عادل شیخ حسب سابق چند درجن کارکنوں کو نکال کر نعرے بازی کریں گے اور سوشل میڈیا پر تصاویر یا ویڈیوز ڈال دیں گے۔ بلوچستان میں بھی صورت حال ایسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
اصل ’’میدان جنگ‘‘ پنجاب ہے، جہاں شدید اندرونی اختلافات کے سبب پی ٹی آئی پہلے بھی کارکنوں کو باہر نکالنے میں ناکام رہی ہے۔ پانچ اگست کے حوالے سے بھی صورت حال مختلف دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی چیف آرگنائزر پنجاب عالیہ حمزہ اور مرکزی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کے مابین ڈھائی ہفتے قبل ہونے والی جھڑپ سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی قیادت اور صو بائی قیادت کے مابین کس قدر دوریاں ہیں۔ تب لاہور کے ایونٹ میں مدعو نہ کرنے پر چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے ٹویٹ کیا تو سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ بھڑک اٹھے تھے اور انہوں نے تادیبی کارروائی کی دھمکی دے ڈالی۔
چلیں یہ بات تو کچھ پرانی ہوچکی، لیکن تازہ خبریں یہ آرہی ہیں کہ پانچ اگست کے احتجاج کو لے کر ایک بار پھر سلمان اکرم راجہ نے عالیہ حمزہ کو لتاڑ دیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ عالیہ حمزہ نے پانچ اگست کے احتجاج کے حوالے سے مرکزی قیادت سے پلان مانگا تو سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ صوبائی انچارج ہونے کے ناطے اپنی حکمت عملی خود ترتیب دو۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے پانچ اگست کو مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت مانگ رکھی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ایسی کوئی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں۔ لا محالہ پی ٹی آئی پنجاب کی قیادت کو حالیہ حمزہ کی قیادت میں احتجاج کے باہر نکلنا ہوگا، اور مشکل یہ ہے کہ انہیں مرکزی قیادت کی سرد مہری کا سامنا ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں پانچ اگست کی تحریک کا کیا حال ہونے جارہا ہے۔
پی ٹی آئی کو خود بھی احساس ہے کہ پانچ اگست کا شو کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ لہٰذا ایک کوشش یہ کی جارہی ہے کہ احتجاج کی ذمہ داری محمود خان اچکزئی کے کاندھوں پر ڈال دی جائے۔ تاکہ ناکامی پر فیس سیونگ مل جائے۔ اس بارے میں جنید اکبر کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے پانچ اگست کے احتجاج کو تحفظ آئین پاکستان لیڈ کرے گا۔ جس کے سربراہ اچکزئی ہیں اور وہی احتجاج سے متعلق فیصلے کریں گے۔ قصہ مختصر احتجاج کے حوالے سے پی ٹی آئی بری طرح الجھن کا شکار ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos