فائل فوٹو
فائل فوٹو

تائیوان پر قبضہ کی جنگ- امریکہ اور چین آمنے سامنے آگئے

میگزین رپورٹ :

تائیوان پر قبضے کی جنگ میں امریکہ اور چین آمنے سامنے آگئے ہیں۔ عالمی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ عنقریب دنیا ایک اور نئے جنگ کے تجربے سے گزرنے والی ہے اور یہ جنگ جدید دور کی سب سے خونریز ہو سکتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کے مطابق چین تائیوان کی شناخت تبدیل کرنے کی غرض سے فوجی طاقت استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شی جن پنگ نے اپنی فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ 2027ء تک تائیوان پر حملے کے قابل ہو جائے۔ پیپلز لبریشن آرمی اس مقصد کیلئے عسکری قوت تیار کر رہی ہے۔ جبکہ چین نے امریکی وزیر دفاع کے الزامات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے واشنگٹن کو خبردار کیا ہے کہ وہ آگ سے کھیلنے سے باز رہے۔ تائیوان چین کا داخلی معاملہ ہے اور اسے چین پر دبائو ڈالنے کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ امریکا غیرذمہ دارانہ بیانات سے خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تائیوان کو چینی دراندازی کا خوف ہے اور امریکہ تائیوان کو چین کے ممکنہ کنٹرول سے بچانے کیلئے مسلسل ملٹری سپورٹ فراہم کررہا ہے۔ اس ضمن میں تائی پے حکومت کی جانب سے سمندری نگرانی کیلئے ڈورنز بوٹس فورسز بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ سمندری ڈرون چین کو پسپا کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے کئی ماہ سے تائیوان کے ناہموار شمال مشرقی ساحل سواؤ بے میں چینی جنگی اسپیڈ بوٹس کی در اندازی کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اس بار تائیوان میں ان خدشات سے نمٹنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے اسٹیلتھ کاربن وائجر ون، بلیک ٹائیڈ ون اور دھماکہ خیز مواد لے جانے والی سی شارک 800 سی ڈورنز کی فورسز بنائی جارہی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ تائیوان کا ساحلی علاقہ سوائو بے اور فلانگ چینی حدود سے صرف ساٹھ کلو میٹر کی دوری پر ہے اور عین ممکن ہے وہ اپنی پیپلز لبریشن آرمی کے ذریعے تائیوان میں سمندری راستے سے چڑھائی کرے۔

جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تائیوان پر قبضہ کرکے ٹیکنالوجی کی دنیا میں امریکہ کو پچھاڑ سکتا ہے۔ امریکہ میں ٹیکنالوجی تائیوان کے بنائے گئے مائیکرو چیپس پر انحصار کرتی ہے۔ تائیوان سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی دنیا کی سرفہرست چپ میکر ہے، جو تقریباً 90 فیصد جدید ترین سیمی کنڈکٹرز تیار کرتی ہے۔ اسی سبب امریکہ نے تائیوان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔

اس سلسلے میں گزشتہ روز امریکہ اور اور تائیوان نے مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز کردیا ہے۔ اس تربیتی مشق کا مقصد کسی بھی چینی حملے کے خلاف مزاحمت کرنے کے جزیرے کے عزم کو ظاہر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی تعاون سے تائیوان میں ہیمارس نامی میزائل سسٹم نصب کردیے ہیں۔ ہیمارس کے جدید نظاموں سے لیس دو بکتر بند ٹرکوں کو تائیوان کے وسطی ساحل سے دور تائی چْنگ شہر کے ارد گرد نصب کیا گیا ہے۔

ایک فوجی ترجمان کرنل چن لیان جیا نے کہا کہ جنگ کے وقت ’’ہیمارس‘‘ سسٹم سے دشمن کی فضائی یا سیٹلائٹ جاسوسی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر میزائل بھی لانچ کیا جاسکتا ہے۔ جس کی رینج انٹر کانٹینٹل میزائل کے تقریباً برابر ہے۔ واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنی سرزمین قرار دیتا ہے اور اس نے جزیرے کے ارد گرد اپنے فوجی دباؤ کو پچھلے پانچ برسوں میں تیز کیا ہے۔

دوسری جانب بیجنگ اور تائی پے کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جب تائیوان کی جانب سے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کیا گیا تو جواباً چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے سمندری مشقوں میں اپنی ’’ٹینک بوٹس‘‘ کی طاقت دکھائی۔

برطانوی اخبار ’’دی سن‘‘ کے مطابق چینی افواج نے یہ مشقیں چین کے صوبہ فوجیان کے ساحلی علاقوں میں کیں، جو براہِ راست تائیوان کے سامنے ہے۔ خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کے مطابق تائیوان نے سالانہ ’’ہان کوانگ‘‘ جنگی مشقوں کا آغاز کیا۔ ان مشقوں کا مقصد چین کی طرف سے ممکنہ سائبر اور کمیونیکیشن حملوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا جائزہ لینا ہے۔

ایک اعلیٰ تائیوانی حکومتی اہلکار نے بتایا ’’ہم یوکرین کی حالیہ جنگ سے سیکھ رہے ہیں اور حقیقت پسندانہ انداز میں سوچ رہے ہیں کہ تائیوان کو ممکنہ طور پر کن حالات کا سامنا ہو سکتا ہے‘‘۔ مشقوں میں 22 ہزار ریزرو فوجی شامل ہوں گے۔ جبکہ امریکہ سے درآمد کردہ جدید ہائی موبیلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (HIMARS) بھی استعمال کیا جائے گا۔

دوسری جانب چینی وزارتِ دفاع کے ترجمان نے ان مشقوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’’چاہے تائیوان کوئی بھی ہتھیار استعمال کرے، وہ پیپلز لبریشن آرمی کی تیز دھار تلوار کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘۔ چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کو دیئے گئے بیان میں جیانگ بن نے تائیوان کی مشقوں کو صرف ایک دھوکہ قرار دیا۔ حالیہ کشیدگی اس بات کا اشارہ ہے کہ چین اور تائیوان کے درمیان فوجی تناؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں اطراف جنگی مشقیں بیک وقت جاری ہیں۔

یاد رہے کہ چین کی آبادی لگ بھگ ایک ارب 40 کروڑ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تائیوان کی آبادی فقط تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ تائیوان کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہے۔ جبکہ چینی فوج سائز، فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں میں بھی تائیوان سے بہت آگے ہے۔ تائیوان اس عدم توازن سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے اس نے ’ڈیفنس شیلڈ‘ کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جس میں دشمن کو تائیوان کے ساحل پر روکنا، سمندر میں حملہ کرنا، ساحلی علاقے پر حملہ کرنا اور دشمن کے ساحلی محاذ پر حملہ کرنا شامل ہیں۔