بڑھتی کشیدگی پر بین الاقوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ، فائل فوٹو
 بڑھتی کشیدگی پر بین الاقوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ، فائل فوٹو

روسی و امریکی ایٹمی آبدوزیں آمنے سامنے آگئیں

میگزین رپورٹ :

روس کی جوہری طاقت دیکھ کر امریکہ پریشانی کا شکار ہوگیا۔ جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی نیوکلیئر آبدوزیں بالکل آمنے سامنے آچکی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اپنی نیوکلیئر آبدوز کو بحرالکاہل میں تعینات کے اعلان کو بھوکھلاٹ کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

ایک ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو یوکرائن پر جارحیت ختم کرنے کا دس دن کا الٹی میٹم دیا، جس کے جواب میں روس کے سابق صدر میدویدیف کا کہنا تھا کہ امریکہ کو دو چیزیں یاد رکھنی چاہئیں۔ اول روس اسرائیل یا ایران نہیں ہے۔ دوسرے، ہر ایک الٹی میٹم بڑی جنگ کی طرف بڑھتا قدم ہے۔ ٹرمپ کی اس دھمکی کے بعد سے روس نے یوکرائن پر اپنے حملے تیز کردیے ہیں۔

گزشتہ دنوں کیف پر روسی حملوں میں غیر معمولی شدت دیکھنے کو مل رہی اور دو روز کے دوران روسی حملے میں 35 سے زائد شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔ جبکہ روس نے تین روز قبل بڑی بحری کارروائی میں دنیا کے سب سے بڑے اور نیوکلیئر وار ہیڈ رکھنے کی صلاحیت والے میزائل کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔ روسی بحریہ کی سب سے طاقتور آبدوز اورل نے شمال مغرب کے ساحل کے قریب بحیرہ بیرنٹس میں ڈمی اہداف پر P-700 گرانٹ کروز میزائل حملہ کیا۔ یہ آپریشن سونامی وارننگ سے عین تین روز قبل کیا گیا۔

آپریشن ’’طوفان‘‘ میں 15,000 سے زیادہ اہلکار، 150 جہاز اور 120 طیارے شامل تھے جنہوں نے بحرالکاہل اور آرکٹک سمندروں کے ساتھ ساتھ کیسپین اور بالٹک سمندروں میں جنگی مشقوں میں حصہ لیا، جسے ولادیمیر پوٹن کی فوجی طاقت کے تازہ ترین مظاہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔1970ء کی دھائی میں ڈیزائن کیے گئے گرینائٹ کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کروز میزائلوں میں ہوتا ہے اور یہ جوہری وار ہیڈ کو 300 میل تک لے جا سکتا ہے۔ یہ میزائل اہداف کا تعین کرنے کے لیے زیادہ اونچائی تک جاتا ہے اور واپسی پر بجلی کی رفتار سے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ اورل آسکر II جوہری طاقت سے چلنے والی سوویت دور کی تین آبدوزوں میں سے ایک ہے جو آج بھی کام کر رہی ہے۔

ٹیلی گراف کے مطابق پینٹاگون کی جانب سے روس کی ان مشقوں کی سٹیلائٹ کے ذریعے جاسوسی بھی کی گئی تھی۔ جبکہ یکم اگست کو شائع ہونے والی سیٹلائٹ تصویروں میں روس کے مشرق بعید میں جوہری آبدوز اڈہ طاقتور سونامی لہروں سے نقصانات کے مناظر بھی دیکھے گئے ہیں۔ لہروں نے مبینہ طور پر Rybachiy بحری اڈے کو نشانہ بنایا، جس میں روس کے پیسفک فلیٹ میں جوہری آبدوزوں کا بڑا حصہ موجود ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ مجموعی طور پر بیس کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔

روس کا Rybachiy بیس، ماسکو کے پیسفک فلیٹ میں جوہری آبدوزوں کا گھر ہے۔ یہ جہاز بحرالکاہل میں روس کی نیوکلیئر ڈیٹرنس کی حکمت عملی کے لیے اہم ہیں۔ کیونکہ یہ امریکہ کے زیادہ قریب تعینات ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی حلقوں میں ایک بار پھر نیوکلیئر کشیدگی پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف سفارتی سطح پر تشویش ناک ہے بلکہ عالمی سلامتی کو لاحق خطرات کو بھی نمایاں کر رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ’’نیو اسٹارٹ معاہدہ‘‘ (New START Treaty) عملاً غیر مؤثر ہے۔

’’نیو اسٹریٹیجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی‘‘ (New START) 2010ء میں امریکا اور روس کے درمیان طے پائی تھی، جس کا مقصد دونوں ممالک کے نیوکلیئر ہتھیاروں کی تعداد اور صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک صرف 1550 جوہری وارہیڈز اور 700 لانچرز رکھ سکتے تھے۔ معاہدے میں ایک دوسرے کے ہتھیاروں کی نگرانی، ڈیٹا شیئرنگ اور معائنہ شامل تھا تاکہ غلط فہمی یا اشتعال سے بچا جا سکے۔

کریملن حکومت کا پراسرار ’’ڈیڈ ہینڈ‘‘ امریکہ کیلئے سب سے بڑا مسلئہ بنا ہوا ہے۔ یہ نظام خودکار طور پر امریکا یا دشمن ریاست پر جوہری حملہ کر سکتا ہے۔ یہ نظام زلزلے، تابکاری اور مواصلاتی خاموشی جیسے اشاروں پر کام کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نظام دشمن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’اگر ہم ختم ہوئے، تو تم بھی بچ نہیں سکو گے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے بیان کے بعد روسی پارلیمنٹ کے رکن وکٹر وودولاتسکی نے کہا کہ امریکی آبدوزیں پہلے سے روسی نیوکلیئر آبدوزوں کے نشانے پر ہیں اور کسی اضافی ردعمل کی ضرورت نہیں۔ روس کے پاس دنیا کے سمندروں میں امریکا سے کہیں زیادہ نیوکلیئر آبدوزیں موجود ہیں۔ ادھر دونوں ممالک کی آبدوز صلاحیتوں کا موزانہ کیا جائے تو اوہائیو کلاس آبدوزیں امریکی بحریہ کی وہ زیر آب طاقت ہیں جو خاموشی سے نیوکلیئر وارہیڈز لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہیں ’’بومرز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس وقت 14 ایسی آبدوزیں سروس میں ہیں، ان میں 20 تک سب میرین لانچڈ بیلسٹک میزائلز (ایس ایل بی ایمز) لوڈ کئے جا سکتے ہیں۔امریکا تین اقسام کی ایٹمی حملہ آور آبدوزیں چلاتا ہے جس میں ورجینیا کلاس، سی وولف کلاس، اور لاس اینجلس کلاس (688 کلاس)۔ ان میں ٹوماہاک اور ہارپون میزائلز کے ساتھ ایم کے-48 تارپیڈوز بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ آبدوزیں دشمن کی آبدوزوں یا بحری جہازوں کو تلاش کرکے تباہ کرنے، خفیہ آپریشنز، نگرانی، اور بارودی سرنگوں کے خطرے کے پیش نظر استعمال کی جاتی ہیں۔

روس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا آبدوزوں کا بیڑا ہے، جس میں تقریباً 64 آبدوزیں شامل ہیں۔ ان میں سے 14 بیلسٹک میزائل آبدوزیں (ایس ایس بی اینز) اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے ہیں، جن میں بورے کلاس اور ڈیلٹا فور کلاس شامل ہیں۔ روسی نیوی کے پاس 8 بورے کلاس آبدوزیں ہیں، جن میں 16 بولاوا ایس ایل بی ایمز اور چھ 533 ملی میٹر کے تارپیڈو لانچر ہوتے ہیں۔ یہ آبدوزیں سمندری بارودی سرنگیں اور اینٹی آبدوز راکٹس بھی داغ سکتی ہیں۔ ان کا عملہ 100 سے زائد افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ روس کے پاس چار یاسن کلاس جوہری آبدوزیں ہیں، جو نسبتاً چھوٹی اور کم عملے کی حامل ہوتی ہیں۔

یہ آبدوزیں پانچ 3 ایم 54-1 کالیبر میزائل یا چار پی-800 اونکس میزائل لے جا سکتی ہیں، جو طویل فاصلے تک زمینی یا بحری اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اکولا کلاس آبدوزیں، جنہیں روسی زبان میں ’’شارک‘‘ بھی کہا جاتا ہے، روسی بحریہ کی خاموش قاتل آبدوزیں ہیں۔ ان میں کالیبر، اونکس یا گرانیٹ میزائل اور تارپیڈو سسٹمز نصب ہوتے ہیں اور یہ امریکی لاس اینجلس کلاس کا جواب سمجھی جاتی ہیں۔