چھ ماہ قبل پراپرٹی ٹائیکون نے دھمکی آمیز پوسٹ کی تھی- بعد میں معافیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، فائل فوٹو
 چھ ماہ قبل پراپرٹی ٹائیکون نے دھمکی آمیز پوسٹ کی تھی- بعد میں معافیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، فائل فوٹو

ملک ریاض کی فیصلہ کن ویڈیو پیغام کی دھمکی

امت رپورٹ :

’’عنقریب چیئرمین بحریہ ٹاؤن کی طرف سے ایک ویڈیو پیغام جاری ہونے والا ہے جو فیصلہ کن ثابت ہوگا اور بحریہ ٹاؤن کے مستقبل کا تعین کرے گا۔‘‘ یہ دعویٰ بحریہ ٹاؤن کے ایک اعلیٰ عہدیدار عدنان محمود نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس ویڈیو پیغام میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس سمیت دیگر مقدمات میں مفرور ملک ریاض کیا ’’فرمانے‘‘ والے ہیں؟

یاد رہے کہ قریباً چھ ماہ قبل بھی ملک ریاض نے ویڈیو پیغام تو نہیں، لیکن اپنے تئیں فیصلہ کن ٹویٹ (ایکس پوسٹ) ضرور کی تھی۔ یہ ٹویٹ ایک طرح سے ریاست کو للکار تھی۔ جس میں انہوں نے خود کو ’’چے گویرا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ دن تھے جب عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف ایک سو نوے ملین پاؤنڈ میگا کرپشن کیس تیزی سے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کیس میں ملک ریاض بھی اہم شریک ملزم تھے، چنانچہ ان کی گواہی بہت اہمیت رکھتی تھی۔ تاہم دبئی میں بیٹھے میڈیا ٹائیکون نے ایک دوسری لائن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پوسٹ میں کہا ’’میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا! میں ضبط کررہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ مت بھولنا کہ بچھلے پچیس تیس برسوں کے سب راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔‘‘

ملک ریاض کا خیال تھا کہ ان کی دھمکی آمیز پوسٹ کے نتیجے میں ایوانوں اور طاقت کے مراکز میں بھونچال آجائے گا۔ کیونکہ پچھلی کئی دھائیوں سے ریاست کے تقریباً تمام ذمہ داروں نے ان سے آنکھ ملانے کی جرات نہیں کی تھی، لہٰذا اب بھی ایسا ہی ہوگا اور ان کی تھوڑی کو ہاتھ لگا کر منتیں کی جائیں گی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ملک ریاض بھول گئے کہ یہ ’’حافظ‘‘ کا دور ہے۔ جہاں اس کے پیسے کی طاقت ’’صفر‘‘ ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ دن لد گئے جب وہ بیوروکریسی کو رام کرنے کے لیے فائلوں کو پہیہ لگا دیا کرتے تھے۔ ریاست کے تقریباً ہر ستون کو انہوں نے پیسوں کے بوجھ تلے دبا رکھا تھا۔ آنے جانے والے ہر حکمران کو وہ اپنی نوازشات سے اس قدر ممنون کردیتے کہ وہ ان کا دم بھرتا تھا۔ سوائے چند کو چھوڑ کر سارا میڈیا بھی خرید رکھا تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی میڈیا کا بڑا حصہ ان کے خلاف ہر خبر غائب کر دیتا ہے اور اگر کوئی خبر دینی بھی پڑ جائے توان کا نام لینے سے شرماتا ہے۔

ملک ریاض کے لیے فی الحال سب کچھ بدل گیا ہے۔ ڈنڈا ایسا چلا ہے کہ اکڑ اور دھمکی آمیز لہجہ فریاد میں بدل چکا ہے۔ وہ مختلف ذریعوں سے معافی کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ اسی نوعیت کا فریاد نامہ ملک ریاض نے اپنے ایک ہمدرد صحافی کے ذریعے بھی چھپوایا ہے، جس نے چند روز پہلے دبئی میں ان سے ملاقات کی۔ اس فریاد نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’میں پاکستان واپس آنا چاہتا ہوں۔ وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں اور دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میرے ذمہ جس کا جو حساب نکلتا ہے، وہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔ میری اب صرف ایک خواہش ہے۔ آپ اسے آخری سمجھ لیں۔ میں نے جس کا جو دینا ہے، وہ دینے کے لیے تیار ہوں۔ میرے ساتھ جس نے زیادتی کی، میں نے اسے صدق دل سے معاف کیا اور اگر میں نے کسی سے زیادتی کی تو میں اس سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘

صرف چھ ماہ پہلے سب کو بے نقاب کرنے کی دھمکی دینے والے ملک ریاض گھٹنوں پر کیسے آگئے؟ اس کے پیچھے خوف خدا نہیں بلکہ قانون کا شکنجہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے گرد سخت ہوتا جارہا ہے۔ نیب کی جانب سے ملک ریاض کی ملک بھر میں ضبط شدہ غیر قانونی جائیدادیں نیلام ہورہی ہیں۔ اس پراپرٹی میں سینما، شادی ہال، سفاری پارک، اسکول اور بحریہ ٹاؤن ہیڈ آفس بھی شامل ہے۔ قریباً سوا مہینے قبل ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض اور داماد زین ملک کی مجموعی طور پر پچیس جائیدادیں منجمد کی گئیں۔

بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس پہلے ہی منجمد ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن میں پانی، بجلی اور صفائی کا نظام درہم برہم ہے۔ عدم ادائیگی کے باعث ڈیزل دستیاب نہیں اور سائٹس پر تمام کام بند ہوچکا۔ ملازمین تنخواہو ں کو ترس رہے ہیں۔ غرض یہ کہ عروج اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جبکہ تحقیقا ت کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ دبئی میں ملک ریاض کے نئے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کے لئے بڑے پیمانے پر جو پیسہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے باہر جارہا تھا، اس کے خلاف تیزی سے تحقیقات ہورہی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ چودہ سے پندرہ ارب روپے پہلے ہی دبئی پہچا دئیے گئے تھے، تاکہ وہاں نیا پروجیکٹ شروع کیا جاسکے۔ بحریہ ٹاؤن کے ایک مشتاق نامی کرتا دھرتا کے خلاف یہ تحقیقات ہورہی ہیں کہ انہوں نے کھربوں روپے کی ٹرانزیکشن میں معاونت کی۔ دوسری جانب گرفتاریوں کا سلسلہ بھی دراز ہورہا ہے۔ ملک ریاض کے دو ایسے قریبی لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ تازہ گرفتاریاں بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ہیڈ آفس سے جمعہ کے روز کی گئیں۔ پولیس، انجینئر سلیم اور کرنل (ر) جمیل کو اپنے ساتھ لے گئی۔

یاد رہے کہ ملک ریاض نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر انہیں ایکس پوسٹ کے ذریعے مبارکباد کا پیغام دیا تھا۔ تاکہ برف کو پگھلایا جا سکے۔ لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ بعد ازاں صحافی اعزاز سید نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک ریاض نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو دو خطوط لکھ کر معافی اور تین ہزار کنال اراضی شہدا کے خاندانوں کو عطیہ کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ احتساب کا پہیہ مسلسل چل رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ احتساب کا یہ پہیہ چلتا ہی رہے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سوشل میڈیا پر ملک ریاض کے کاسہ لیس بعض صحافی تسلسل سے یہ خبریں چلا رہے تھے کہ تمام معاملات طے ہو چکے ہیں۔ اور پراپرٹی میڈیا ٹائیکون پندرہ جولائی کو واپس پاکستان آجائیں گے۔ لیکن پندرہ جولائی گزر گئی اور ایسا کچھ نہیں ہوا۔