بیشتر کی عمر 13 سے 19 برس کے درمیان ہے- بروقت ویکسی نیشن نہ ہونے سے ریبیز کا خطرہ ہوسکتا ہے، فائل فوٹو
بیشتر کی عمر 13 سے 19 برس کے درمیان ہے- بروقت ویکسی نیشن نہ ہونے سے ریبیز کا خطرہ ہوسکتا ہے، فائل فوٹو

2 ماہ میں بلی کے کاٹنے سے 250 سے زائد افراد زخمی

محمد اطہر فاروقی :

10 جون کی شام تقریبا 7 بجے کے قریب ایک خاتون اپنی بچی کے ہمراہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔ اس نے 13 سالہ بچی کا ہاتھ کلائی سے پکڑا ہوا تھا۔ اس نے طبی عملے کے ایک رکن سے پوچھا کہ جانور کے کاٹنے سے زخمی کا علاج یہاں کیا جاتا ہے؟ ہاں میں جواب پاکر خاتون نے بچی کا ہاتھ دکھایا۔ بچی کے ہاتھ پر دوپٹے کے پھٹے ہوئے ایک ٹکرے سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔ متاثرہ بچی کے ہاتھ سے دوپٹے کا ٹکڑا کھولا گیا۔ زخم گہرا تھا اور ہلکا ہلکا خون بھی نکل رہا تھا۔

بچی کی والدہ سے پوچھا گیا کہ بچی کو کس جانور نے کب اورکیسے کاٹا۔ خاتون نے جواب دیا کہ بچی بتایا تھا کہ اسے بلی نے کاٹا ہے۔ اسٹاف کے مزید سوالات پر خاتون نے بتایا ’’میں گارڈن کی رہائشی ہوں۔ میری بچی سلمیٰ (فرضی نام) پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ اسکول کی چھٹیاں ہیں۔ بچے محلے میں کھیلتے ہیں۔ گلی میں سبزی اور مرغی کے دکان بھی ہے۔ خصوصا مرغی کی دکان کی وجہ سے بلیوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے۔

کسی بچے نے کسی نے بلی کو پتھر مارا ہوگا۔ بلی نے میری بچی کے ہاتھ کو نوچ لیا۔ محلے میں قریبی کلینک گئی۔ انہوں نے ہاتھ دیکھا اور سول یا جناح جانے کا کہا۔ اس لئے میں یہاں آ گئی‘‘۔ اسٹاف نے بچے کے زخم کو صاف کیا اور اینٹی ریبیز و حفاظتی ویکسین کا کورس شروع کروا دیا۔

کراچی میں بلی کے کاٹنے کا یہ واحد کیس نہیں۔ بلکہ جون جولائی میں ایسے کیسز میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک سرکاری اسپتال میں ماہ جولائی کے دوران 70 سے زائد بلی کے کاٹنے سے زخمی افراد لائے گئے۔ اس کی ایک وجہ اسکول کی سالانہ گرمیوں کی چھٹیوں کو بھی بتایا جا رہا ہے۔ شہر میں محض 2 بڑے اسپتالوں میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران ڈھائی سو سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے۔ سول اسپتال سے حاصل معلومات کے مطابق ماہ جون میں بلی کے کاٹنے کے 32 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ جولائی میں 70 سے زائد کیس رپورٹ کیے گئے۔ انڈس اسپتال کورنگی میں جون اور جولائی کے دوران 150 سے زائد کیسز سامنے آئے۔ جناح اسپتال کے ترجمان کے بقول کتے اور بلے کے کاٹنے کے کیسز کے اعدادوشمار ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر محض 2 ماہ کے دوران 250 سے زائد کیس بلی کے کاٹنے سے زخمی ہونے والوں کے ہو چکے ہیں۔

’’امت‘‘ نے اس حوالے سے ماہرین سے بات کی تو انچارج ریبیز اینڈ ڈاگ بائٹ سول اسپتال ڈاکٹر رومانہ فرحت نے بتایا کہ بلی اور کتے دونوں کے کاٹنے کے بعد متاثرہ شخص کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ کیونکہ اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ بلی میں ریبیز ہے یا نہیں۔ ریبیر انتہائی خطرناک بیماری ہے اور اس کا علاج بالکل نہیں ہے۔ سول اسپتال میں سب سے زیادہ پالتو بلیوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والوں کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبکہ ان میں بھی بیشتر کی عمر 13 سے 19 سال کے درمیان ہیں۔ تاہم بچوں کو کتے کے کاٹنے کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مارکیٹ خصوصا گوشت مارکیٹ وغیرہ میں کام کرنے والے افراد میں بلی کے کاٹنے کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بلی کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے متاثرہ شخص کا بروقت علاج اور ویکسینیشن نہ ہونے سے ریبیز کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ ایک سوال پر ڈاکٹر رومانہ نے بتایا ’’بلی کے کاٹنے کے فوری بعد جسم کے اس حصے کو اچھی طرح 15 منٹ تک دھوئیں، تاکہ جراثیم ختم ہو جائے۔ دھونے کیلئے سب سے بہتر کپڑے دھونے والا صابن ہے۔ کیونکہ اس میں وائرس کو ختم کرنے کیلئے طاقت ور کیمیکلز زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی کا گھر گائوں، گوٹھ یا ایسی جگہ پر ہے جہاں اسپتال پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں تو ایسے میں زخم کو ہر ایک یا 2 گھنٹے بعد 15 منٹ کیلئے اچھی طرح دھویا جائے‘‘۔

انہوں نے کہا ’’میری رائے کے مطابق بلیوں کو گھر کے اندر نہیں پالنا چاہیے۔ ان کیلئے ایک جگہ مختص کر لینی چاہئے اور اسی جگہ تک انہیں محدود رکھا جائے۔ کیونکہ بلی سے استھیما، الرجی اور دیگر ڈیزیز بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلی کی ویکسینیشن مکمل ہونی چاہیے۔ کیونکہ پالتو بلی اور آوارہ بلی میں ایک بینادی فرق ویکسینیشن کا ہوتا ہے‘‘۔
انڈس اسپتال کے ریبیز پریوینشن اینڈ ٹریننگ سینٹر کے منیجر آفتاب گوہر کا بھی یہی کہنا ہے کہ ریبیز ایک جان لیوا مرض ہے جو کسی بھی جانور کے کاٹنے سے انسان میں منتقل ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق انڈس اسپتال میں جانوروں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے افراد میں 90 سے 95 فیصد کیسز کتے کے کاٹنے کے رپورٹ ہوتے ہیں اور دوسرے نمبر پر 4 فیصد کیسز بلی کے کاٹنے کے رپورٹ ہوتے ہیں۔ باقی گدھے، بندر وغیرہ کے کاٹنے کے کیسز ہوتے ہیں

۔ بلی کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے مریضوں کو بھی اینٹی ریبیز ویکسین دی جاتی ہے۔ کیونکہ بلی کے کاٹنے سے بھی کسی حد تک ریبیز کے کیسز کا خطرہ ہوتا ہے۔ بلی کے کاٹنے کے مریض اور کتے کے کاٹنے کے مریض کا ایک ہی طرح سے علاج کیا جاتا ہے اور ریبیز سے بچائو کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ البتہ اس میں ایسے پالتو بلیاں جن کو ویکسین لگی ہوئی ہو تو اس سے ریبیز کی بیماری کا خطرہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ کتے و بلی کے کاٹنے کے بعد سب سے پہلا عمل زخم کو کسی بھی عام صابن سے اچھی طرح 15 منٹ تک دھونا ہے۔ کیونکہ بلی کے لعاب میں بھی جراثیم ہوتے ہیں۔ یہ عمل کرنے سے 30 سے 40 فیصد ریبیز کے ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

آفتاب گوہر کے بقول ’’ریبیز ایک خطرناک بیماری ہے۔ اگر جانور کے کاٹنے کے بعد اس کا علاج اور ویکسین نہ کرائی گئی ہو تو 6 ہفتے سے لے کر 6 ماہ کے دوران ریبیز کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، چاہے زخم ٹھیک ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اس کی علامات میں شروع میں ہلکا سر درد، بخار ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان بے چین ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ وقت بعد متاثر شخص کو پانی اور ہوا سے ڈر لگتا ہے۔ اگریہ علامات ظاہر ہو جائیں تو اس کا علاج پوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ’’بلی کے کاٹنے کے کیسز میں زیادہ تر کیس ایسی بلیوں کے ہوتے ہیں جو گلی محلوں اور کمیونٹی تک محدود ہوتی ہیں۔ ایک بلکل آوارہ بلی ہوتی ہے اور ایک پالتو بلی۔ تیسری ایسی بلی جسے اکثر محلے والے کوئی گوشت کا ٹکڑا، دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں دیتے ہیں اور وہ اسی علاقے تک محدود رہتی ہے۔ سب سے زیادہ انہی بلیوں کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ بلی کے کاٹنے یا نوچنے سے ہونے والے زخم میں ریبیز کے خطرے کے علاوہ بیکٹیریل انفیکشن ہوسکتا ہے۔ اگر زخم گہرا ہے تو معائنہ کرنے والا ڈاکٹر طے کرتا ہے کہ اس مریض کو اینٹی بائیوٹک کون سی اور کیسی دینی ہے‘‘۔

کے ایم سی ویٹرنری سروسز ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تاج نے بتایا کہ کسی بھی جانور خصوصاً بلی کو اگر گھر میں پالا جا رہا ہے تو اس کیلئے سب سے اہم اس کی ویکسینیشن ہے۔ اس کے بغیر بلی کو گھر میں رکھنا ایسا ہی ہے کہ کسی آوارہ بلی کو رکھا ہوا ہے۔ دوسری کوشش یہ کرنی چاہیے کہ گھر میں اس کیلئے مکمل الگ جگہ ہو۔ اس کی فیڈ اور دیگر تمام اشیا سے خصوصا بچوں کو دور رکھا جائے۔ کیونکہ بچوں میں الرجی ہو سکتی ہے۔

انڈس اسپتال کے منیجر آفتاب گوہر کے بقول عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن کے مطابق جانور کے کاٹنے سے متاثرین کے 3 درجے ہوتے ہیں۔ پہلا درجہ ایسے مریضوں کا ہوتا ہے، جنہیں محض خوف ہوتا ہے کہ اسے کسی جانور نے کاٹا ہے۔ جبکہ اصل میں جانور صرف اس کے پاس سے گزرے ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں کا انڈس میں ہماری ٹیم مکمل معائنہ کرتی ہے اور اگر جسم میں کہیں کوئی جانور کا لعاب لگا ہو تو اسے صاف کر لیا جاتا ہے۔

پہلے درجے کے مریض کو بغیر کسی دوا اور ویکسین کے مطمئن کر کے گھر بھیجا جاتا ہے کہ آپ کو کسی جانور نے نہیں کاٹا۔ دوسرے درجے میں ایسے مریض ہوتے ہیں، جن کے جسم پر جانورکے کاٹنے یا پنجوں سے زخم ہوئے ہوں، لیکن زخم سے خون نہ نکلا ہو۔ اس صورت میں 15 منٹ تک دھلائی تو ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ حفظاتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل کیا جاتا ہے، جو 4 انجکشن کا کورس ہوتا ہے۔ انجیکشن پہلے، دوسرے، ساتویں اور چودھویں دن لگایا جا سکتا ہے اور اس کے طریقہ کار بھی مختلف ہوتے ہیں۔

تیسرے درجے میں جانور کے ناخن یا دانتوں سے کاٹنے پر ہونے والے زخم سے خون بہے یا کسی جانور کا لعاب انسان کے منہ یا آنکھ میں چلا جائے۔ ایسے مریض کے زخم کی دھلائی، حفاظتی ویکیسن کا کورس اور ساتھ ہی الگ سے جسم میں بھی انجکشن لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تیسرے درجے میں مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ بلی پالتو یا آوارہ تھی، پالتو تھی تو آیا اس کو ویکسین ہوئی کہ نہیں۔ بلی کینے کیوں کاٹا۔ کیا اسے اکسایا گیا۔

بلی کے کاٹنے کی وجوہات جاننے کی کوشش کرنے کیلئے مریض سے مکمل سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ عموما جب بلی کو اکسایا جاتا ہے، تنگ کیا جاتا ہے تو بلی کاٹتی ہے۔ ایسی صورت میں ریبیز کا رسک کم ہوتا ہے۔ جبکہ بلی نے بغیر کسی وجہ کے کاٹا اور بعد میں بلی مر گئی یا مزید لوگوں کو بلا وجہ کاٹا تو اس میں رسک زیادہ ہوتا ہے۔