چائلڈ لیبر میں پنجاب سرِ فہرست- کراچی میں شرح سب سے کم نکلی، فائل فوٹو
 چائلڈ لیبر میں پنجاب سرِ فہرست- کراچی میں شرح سب سے کم نکلی، فائل فوٹو

74 لاکھ سے زائد پاکستانی بچے مشقت پر مجبور

ارشاد کھوکھر:

پاکستان میں بچوں سے مشقت نہ کرانے کے متعلق چائلڈ پروٹیکشن کا قانون کئی دہائیوں سے رائج ہے۔ تاہم بدقسمتی سے اس پر عملدراصمد نہیں ہو رہا۔ جس کے باعث لاکھوں بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب مصدقہ ڈیٹا کے مطابق اس وقت بھی چاروں صوبوں میں 74 لاکھ 70 ہزار بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ جن کی عمریں پانچ برس سے سترہ برس تک ہیں۔ بچوں سے مشقت کرانے کا سب سے بڑا سبب غربت ہے۔ جبکہ کئی ایسے بچے بھی ہیں جو کفیل کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے باعث مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔

مشقت کرنے والے بچوں میں سے 21 سے 30 فیصد بچے تشدد، زیادتی، ہراسمنٹ اور مالکان کے نامناسب رویے کے باعث ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ لاکھوں بچے غیر محفوظ آلات کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ مشقت کرنے والوں بچوں میں صوبہ پنجاب کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی تقریباً 48 لاکھ ہے۔ صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد 16 لاکھ 10 ہزار ہے۔ خیبرپختون کے 9 لاکھ 22 ہزار سے زائد اور صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

پاکستان میں 28 برس بعد 2022ء میں چائلڈ لیبر کا سروے کرانے کا کام شروع کیا گیا۔ پنجاب اور کے پی میں مذکورہ سروے 2024ء تک مکمل ہوا۔ جبکہ سیلاب کے باعث سندھ میں سروے اب مکمل ہوا ہے۔ لیکن اس کے ابھی باضابطہ طور پر نتائج جاری نہیں ہوئے۔ پہلے مذکورہ سروے وفاقی حکومت کراتی تھی۔ لیکن آئین میں ترامیم کے بعد یہ معاملہ صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام آنے کے باعث ہر صوبے نے یونیسف اور ادارہ شماریات کے تعاون سے الگ الگ سروے کروایا ہے۔

1996ء کے بعد ہونے والے چائلڈ لیبر کی سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب میں پانچ برس سے سترہ برس تک کے بچے اور بچیوں کی تعداد 3 کروڑ 58 لاکھ 18 ہزار 724 ہے۔ ان میں سے 13 اعشاریہ 4 فیصد یعنی تقریباً 48 لاکھ بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب کے ان بچوں میں سے 52 فیصد بچے صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ جن میں سے 21 اعشاریہ 6 فیصد لڑکے اور 25 اعشاریہ ایک فیصد لڑکیاں ہراسمنٹ، مالکان کے نامناسب رویے، ڈانٹ ڈپٹ اور دیگر وجوہات کی بنا پر ڈپریشن اور ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پنجاب کے ان بچوں میں سے 31 لاکھ 37 ہزار بچوں کی اسکول میں حاضری لگتی ہے۔ جن میں سے 96 اعشاریہ 8 فیصد بچوں کا موقف تھا کہ مشقت کے باعث ان کی تعلیم سخت متاثر ہو رہی ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر بچے ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے وابستہ افراد کے پاس کام کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر دستکاری کی تجارت سے وابستہ افراد کے پاس بچے کام کرتے ہیں۔

پنجاب میں سب سے زیادہ ضلع پاک پتن میں بچوں سے مشقت کرائی جاتی ہے۔ جن کی تعداد 35 اعشاریہ 5 فیصد ہے۔ ضلع بھکر میں ان بچوں کی تعداد 23 اعشاریہ 6 فیصد، مظفر گڑھ 21 اعشاریہ 3 فیصد، جھنگ 18 اعشاریہ 9 فیصد، رحیم یار خان 18 فیصد، ساہیوال 17 اعشاریہ 4 فیصد اور ضلع اوکاڑہ میں مشقت کرنے والے بچوں کی شرح 23 اعشاریہ 9 فیصد ہے۔ اس طرح دیگر اضلاع میں بھی مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم ضلع اٹک میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد سب سے کم یعنی 5 اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ خیبرپختون میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد 73 لاکھ 60 ہزار 359 ہے۔ ان میں سے 11 اعشاریہ ایک فیصد یعنی 9 لاکھ 22 ہزار 314 بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔

سروے کے مطابق سندھ میں پانچ برس سے سترہ برس تک کے بچے اور بچیوں کی تعداد ایک کروڑ 56 لاکھ 36 ہزار 417 ہے۔ ان میں پانچ برس سے نو برس تک کے بچوں کی تعداد 73 لاکھ 4 ہزار 921، 10 سے 13 برس کے بچوں کی تعداد 46 لاکھ 16 ہزار 949 اور 14 برس سے 17 برس تک کے بچوں کی تعداد 37 لاکھ 14 ہزار 547 ہے۔ ان میں سے 52 اعشاریہ 6 فیصد لڑکے اور 47 اعشاریہ 4 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ ان میں سے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد 84 لاکھ 39 ہزار 694 اور شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد 71 لاکھ 98 ہزار 724 بتائی گئی ہے۔

سروے کے مطابق سندھ کے ان بچوں میں سے تقریباً 10 اعشاریہ 3 فیصد یعنی 16 لاکھ 10 ہزار بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں سب سے زیادہ ضلع سجاول میں 35 اعشاریہ ایک فیصد بچے مشقت کرتے ہیں۔ ضلع تھرپارکر میں 25 اعشاریہ 6 فیصد، عمر کوٹ میں 25 اعشاریہ 5 فیصد، ضلع بدین میں 20 اعشاریہ 8 فیصد، میرپور خاص میں 18 اعشاریہ 3 فیصد، ٹھٹھہ میں 19 اعشاریہ 8 فیصد بچے مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے تمام اضلاع میں مشقت کرنے والے بچے موجود ہیں۔ تاہم شرح کے اعتبار سے جنوبی سندھ میں ایسے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ شمالی سندھ میں زیادہ مشقت کرنے والے بچوں میں ضلع جیکب آباد شامل ہے۔ مذکورہ ضلع میں 17 اعشاریہ 5 فیصد بچے مشقت کرتے ہیں۔

سندھ میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد سب سے کم کراچی ڈویژن میں ہے۔ کراچی ڈویژن میں مشقت کرنے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ضلع ملیر میں 4 اعشاریہ ایک فیصد اور سب سے کم تعداد ضلع جنوبی میں 3 فیصد ہے۔ کراچی میں ایسے بچوں کی شرح کم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 18 برس سے کم عمر بچے صنعتوں میں کام نہیں کر سکتے۔ بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی کارروائی ہوجاتی ہے۔ کراچی میں جو بچے مشقت کرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر ہوٹل، گیراجوں، ہول سیل اور ریٹیل کی دکانوں وغیرہ شامل ہیں۔

پنجاب کی طرح سندھ میں بھی مشقت کرنے والے ان بچوں میں سے 40 اعشاریہ 6 فیصد ایسے بچے ہیں جن کی اسکولوں میں حاضری بھی لگتی ہے۔ پھر وہ حاضری دنوں کے لحاظ سے کم ہوتی ہے۔ جس کے باعث ان بچوں کی تعلیم بھی سخت متاثر ہوتی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں مذکورہ عمر کے بچوں کی تعداد تقریباً 41 لاکھ 15 ہزار ہے۔ جن میں سے تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار بچے مشقت کرتے ہیں۔

چاروں صوبوں کی آبادی سے ہٹ کر مشقت کرنے والے بچوں کی شرح کو دیکھا جائے تو پہلے نمبر پر پنجاب میں 13 اعشاریہ 4 فیصد، دوسرے نمبر پر کے پی میں 11 اعشاریہ ایک فیصد، تیسرے نمبر پر سندھ میں 10 اعشاریہ 3 فیصد اور بلوچستان میں مذکورہ شرح سب سے کم یعنی ساڑھے 3 فیصد ہے۔ بلوچستان کے زیادہ تر بچے مشقت کرنے کے عذاب سے اس لئے محفوظ ہیں کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں وہاں زیادہ تر معاشی سرگرمیاں کم ہیں۔ اور ممکن ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کے باعث سروے کا کام پورا نہ ہوا ہو۔

سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بچوں سے مشقت کرانے کا بڑا سبب غربت ہے۔ والدین خود اپنی مرضی سے ان بچوں کو مشقت پر لگادیتے ہیں۔ کئی بچے ایسے بھی ہیں جن کے سروں سے گھر کے بڑے یا کفیل کا سایہ اٹھ جاتا ہے اور وہ ضروریات پوری کرنے کیلئے مشقت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر بھی کئی وجوہات ہیں۔ سندھ میں جو بچے مشقت کرتے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ بچے زرعی شعبے یعنی کھیتی باڑی کے کام سے وابستہ ہاری، کسانوں کے بچے ہیں۔ زراعت کے شعبے سے کسی بھی زمیندار یا وڈیرے کا کم عمر بیٹا اس میں شامل نہیں۔

دوسرے نمبر پر سروسز کے شعبے یعنی ہوٹل، دکانوں میں نوکری کرنے اور پتھارے لگانے سے وابستہ ہیں۔ جبکہ کم عمر لڑکیاں اکثر گھروں میں کام کرتی ہیں۔ لاکھوں بچے ایسے ہیں جو غیر محفوظ آلات کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔ ایسے بچوں میں آٹھ سے دس برس تک کے سندھ کے 8 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ سندھ کے سروے میں کئی والدین کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ گھر کا چولہا جلانے کیلئے کم از کم ایک بچے کو مشقت پر لگانا ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں جس طرح اچھے اچھے قوانین بنائے جاتے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ایسے ہی کئی دہائیوں سے چائلڈ پروٹیکشن کا قانون موجود ہے۔ اور اب سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ محکمہ محنت کا کام چائلڈ لیبر کی نشاندہی کرکے انہیں آگاہ کرنا ہے۔ بچوں کو مشقت سے روکنے کی ذمہ داری مذکورہ اتھارٹی کی ہے۔ یہاں تک کہ بچوں سے مشقت نہ لینے کے متعلق بین الاقوامی قوانین اور اس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔