رفیق افغان۔۔پارہ صفت انسان،بے مثال مدیر

سجاد عباسی

سوچتا ہوں کہ کوئی شخص ایسا پارہ صفت اور توانائی سے بھرپور بھی ہو سکتا ہے؟
ایک باکمال مدیر ،بے مثال لکھاری اور غیر معمولی قوت فیصلہ سمیت کئی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال انسان۔
اردو میں تحقیقاتی صحافت کو نئی جہت دینے والا ایک مشکل پسند ایڈیٹر، جس کا ذہن رسا نئے نئے آئیڈیاز کی بھرمار کر دیا کرتا۔
اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور سواری کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھ کر نشیب و فراز سے بے پروا اپنے متعین کردہ راستے پر سفر کرنے والا جنگجو مسافر ،جو پرخطر راستوں سے ہوتا ہوا منزل پر پہنچ کر ہی دم لے۔
آج "امت” کے مدیر اعلیٰ رفیق افغان صاحب کی چوتھی برسی ہے۔گزشتہ تین برسوں کے دوران ہر سال شائع ہونے والے ایڈیشن میں لکھنے کا سوچا، مگر پھر سوچ کر ہی رہ گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں۔
یادوں کا ایک سیلاب امڈا چلا آتا ہے۔
یوں تو یہ رفاقت کم و بیش 22 برسوں پر محیط ہے کہ مگر فروری 1999 سے مارچ 2016 ، میرے اسلام آباد شفٹ ہونے تک ہی 18 برس بنتے ہیں۔ان 18 برسوں میں ویکلی آف اور ایک آدھ ماہ کی سالانہ رخصت کے سوا شاید ہی کوئی دن ہو کہ ان کے ساتھ نشست نہ ہوئی ہو اور ان میں سے بیشتر نشستیں گھنٹوں پر محیط ہوتی تھیں ۔ان یادوں کو محض جھلکیوں کی صورت میں بھی ایک تحریر میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔
نامکو سینٹر سے آغاز کروں تو تب ہفت روزہ "غازی” کے مدیر کے طور پر میں نے امت گروپ جوائن کیا تھا۔قبل ازیں تفصیلی ملاقات میں معاملات طے پاجانے کے باوجود جنگ گروپ کی ملازمت ترک کرنے میں تامل کا شکار تھا۔ کچھ احباب کا مشورہ بھی تھا کہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کو چھوڑ کر "ایک شخص” کی ملازمت اختیار کرنا دانشمندی نہیں، مگر اس دوران دو بار رفیق صاحب کی کال موصول ہوئی "بھائی دفتر آپ کا منتظر ہے، آ کر اپنی ٹیم بنائیں اور بسم اللہ کریں”.. اور پھر ہم نے غازی کی الگ ٹیم بنا کر نامکو سینٹر کے چوتھے فلور پر کام کا آغاز کیا۔امت کا دفتر میز نائن فلور پر تھا۔ایک ڈیڑھ ماہ کی ڈمی نکالنے کے بعد مئی 1999 میں ہفت روزہ نیوز میگزین کا اجرا کیا، جس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔یہ رفیق افغان صاحب کا دیا ہوا اعتماد ہی تھا جس کے نتیجے میں یہ کامیابی ممکن ہوئی، جبکہ اس سے پہلے میرا میگزین کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ہم "غازی” کا ٹائٹل ہر ہفتے کاپی جانے سے تین دن پہلے ڈسکس کرتے. اس ہفتے کے اہم موضوعات کو سرورق پر نمایاں رکھنے کے ساتھ یہ اہتمام بھی کرنا ہوتا تھا کہ اگلے چند روز کے واقعات کو بھی کور کر لیا جائے، جس کے لیے دوربین نگاہ اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی صلاحیت درکار تھی. 12 اکتوبر 99 کے مشرف انقلاب کے سوا کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ کوئی واقعہ ٹائٹل کا حصہ بننے سے رہ گیا ہو۔ یہ واقعہ بھی ٹائٹل چھپنے کے دوران اور اچانک وقوع پذیر ہوا جسے ہم نے ہنگامی طور پر کاپی رکوا کر ڈبل سرورق کے ساتھ شائع کیا اوراداریے سمیت مین اسٹوری کے ساتھ کور کر کے سرکولیشن کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔

سرورق کے موضوعات پر بحث کے دوران اہم ترین چیز "مین اسٹوری” ہوتی تھی۔بعض اوقات ٹائٹل فائنل کرنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے، مگر اس دوران امت کا کام بھی جاری رہتا۔وہ رپورٹرز کی اہم خبریں خود دیکھتے، انہیں ایڈٹ کرتے اور کمی بیشی کی نشاندہی کر کے اسے فوری مکمل کرنے کی ہدایت کرتے۔ اس دوران ٹائٹل کیلئے مختلف آئیڈیاز ڈسکس کرتے ہوئے اچانک عینک کے موٹے عدسے کے پیچھے رفیق صاحب کی ذہین اور متجسس آنکھوں میں چمک لہراتی اور وہ چٹکی بجا کر کہتے "لکھیں سرخی”۔۔۔
تین سے چار الفاظ پر مشتمل یہ سرخی نہایت پرکشش ،جامع اور معنویت سے بھرپور ہوتی جو نیوز اسٹال پر آنے والے قاری کو دور سے ہی اپنی جانب کھینچ لیتی۔
جو خاص چیز ہم نے ان سے سیکھی ، وہ اپنے کام سے کبھی مطمئن نہ ہونا ہے، جو آپ کو جستجو پر اکسائے رکھتا ہے۔ Perfectionist کی اصطلاح شاید رفیق افغان جیسے لوگوں ہی کے لیے بنی ہے، جس کا کوئی بہتر متبادل اردو میں نہیں ملتا۔غازی کا کام چونکہ جلدی نمٹ جاتا تھا تو وہ رات 10 بجے کے بعد مجھے اپنے آفس میں بلا لیا کرتے، جہاں امت کی اہم خبروں اور تصاویر پر مشاورت کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی چلتی رہتی۔اس دوران وہ درجنوں فون کالز بھی سنتے۔ مگر ان میں سے شاید ہی کوئی کال ایک منٹ کو بھی پہنچ پاتی۔ مختصر اور ٹو دی پوائنٹ بات۔
تب موبائل فون کا چلن عام نہیں تھا۔ آپریٹر کے ذریعے کال موصول ہوتی تو پہلی بیل مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ فون اٹھا لیتے۔یہ فریضہ ان کے معتمد ساتھی برادرم سیف العادل ( علی افضل ہاشمی) انجام دیتے تھے، جنہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون سی کال آگے بڑھانی ہے۔۔ٹیم کے انتخاب میں جو مہارت رفیق افغان کو حاصل تھی، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔وہ ایک ایسے جوہری تھے جو ناتراشیدہ پتھروں کو بھی تراش خراش کر ہیرے کی شکل دے دیتے تھے۔ان کے نزدیک رپورٹنگ کے لیے لکھنے کی صلاحیت سے زیادہ”کرنٹ” اہم تھا۔
رات 10، 11 بجے شروع ہونے والی ہماری نشست بعض اوقات فجر کی اذان کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی،
کئی برس تک ان کی یہ روٹین رہی کہ وہ اخبار چھپنے کے بعد اسی دن اس پر غلطیوں کی نشاندہی کرتے، فالو اپ اسٹوریز کے لیے ہدایات جاری کرتے اور ہر شعبے کے سربراہ یا متعلقہ شخص کے نام پرچہ آپریٹر کے کمرے میں چھوڑ جاتے۔یعنی انہوں نے غیر اعلانیہ طور پراپنی ڈیوٹی ٹائمنگ دوپہر دو بجے سے اگلے روز فجر تک مقرر کر رکھی تھی۔یا یوں کہیے کہ وہ دفتری کام میں آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ کرتے تھے مگر اس دوران گھر پر بھی زیادہ وقت دفتر سے ہی منسلک رہتے تھے۔عملا” ان کا اوڑھنا بچھونا امت اخبار ہی تھا۔

 


کاپی پریس جانے اور چھپنے تک کے وقفے میں ان گنت موضوعات زیر بحث آتے۔ان کا مطالعہ اتنا وسیع اور ہمہ جہت تھا کہ سیاست، صحافت، ادب، تاریخ اور عمرانیات سمیت کون سا ایسا موضوع ہے جس پر وہ سیر حاصل گفتگو نہ کرلیتے۔مطالعے کی رفتار ایسی قابل رشک کہ آپ حیران رہ جائیں۔ ضخیم سے ضخیم کتاب بھی چند گھنٹوں میں نمٹا کر اس کے کسی بھی باب پر نکتہ وار گفتگو کر کے حیران کر دیا کرتے۔
وہ مطالعے کےمعاملے میں "رائٹ اور لیفٹ” کی تخصیص کے قائل نہ تھے، بلکہ مغربی اور روسی ادب ان کا پسندیدہ تھا۔گبریل گارشیا مارکیز پسندیدہ ترین ادیب۔دوسری طرف غالب۔ اقبال۔ فیض اور شیخ سعدی کے اشعار اور مصرعے اپنی تحریروں میں نگینوں کی طرح جڑ دیتے۔
بطور مدیر جس موقف کو درست سمجھتے، اس پر ڈٹ جاتے اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے بخوشی تیار رہتے ۔صحافت کے موجودہ عہد میں انہیں "خطرات کا کھلاڑی” قرار دینا غلط نہ ہوگا۔مشرف دور کے کامل آٹھ برس جس قسم کے دباؤ کا امت کو سامنا رہا، حالیہ صحافتی تاریخ میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔اس دوران وفاق اور سندھ میں برسر اقتدار ایم کیو ایم نے بھی امت کے ساتھ اپنے پرانے اسکور سیٹل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔سرکولیشن کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا اخبار ہونے کے باوجود اس تمام عرصے میں امت ایک سینٹی میٹر کے سرکاری اشتہار سے بھی محروم رہا، جو اس کا بنیادی حق تھا۔ مگر اس پر نہ تو کوئی واویلا کیا گیا اور نہ جرآت و استقامت کی "تشہیر” کی گئی۔اس کا سبب وہ خود اعتمادی اور تیقن تھا جس کی بنیاد پر رفیق افغان نے ایک کامیاب ایڈیٹر کے طور پر اپنے اخبار کو لاکھوں قارئین کی آنکھ کا تارا اور دل کی دھڑکن بنا دیا تھا، جس کی ہر سطر اور ہر لفظ پڑھا جاتا تھا۔ وہ مواد کے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، چاہے اس کے لیے کتنا ہی عملہ رکھنا پڑے۔یہی وجہ ہے کہ امت پاکستان کی اردو صحافت میں بے باک تحقیقاتی رپورٹنگ کا استعارہ بن گیا۔عام قاری تو کیا صحافت کی دنیا کے بڑے نام بھی دوسرے شہروں میں "امت” کے منتظر رہتے۔تب ای پیپر کا تصور نہ تھا بلکہ صرف ڈاک یا کارگو کے ذریعے اخبار کی ترسیل ہوتی تھی۔
اخبار میں جہاں تحقیقاتی رپورٹس کی بھرمار ہوتی ، وہاں خود رفیق افغان صاحب کے کالم خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے، جن کا قارئین کو بے چینی سے انتظار رہتا۔وہ "دوبدو” کے عنوان سے اپنے نام کے ساتھ جبکہ ڈاکٹر ضیاء الدین اور علی شیر نوائی کے قلمی نام سے بھی طویل عرصے تک لکھتے رہے۔ان کی تحریر کاٹ دار اور جملے اس قدر جاندار ہوتے کہ اپنے ہدف پر تیر کی طرح پیوست ہو جاتے۔شگفتہ بیانی ایسی کہ بڑے بڑے مزاح نگار اور انشاء پرداز پانی بھریں۔کوئی لطیف جملہ اچھا لگتا تو اس پر کھل کر ہنستے اور داد دیتے۔ان کی بیاض میں لطائف کا ایک قابل لحاظ ذخیرہ بھی موجود تھا جسے وہ برمحل استعمال کر کے محفل کو زعفران زار بنادیتے۔
ہر انسان کی طرح وہ بھی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ تھے مگر کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی ان کے اوصاف میں نمایاں تھی۔
وہ درجنوں گھرانوں کی خاموش مدد تو کرتے ہی تھے،دفتر کے اسٹاف کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے اور اس معاملے میں ناپ تول کے اعشاری نظام کے قائل نہ تھے۔ دفتر کے ایسے ساتھی جن کی ان تک رسائی نہ تھی، کسی خاص ضرورت کے تحت میں ان کے حوالے سے پرچی اندر بھیجتا تو وہ خاموشی سے رقم کاغذ میں لپیٹ کر اسٹیپل کر کے متعلقہ شخص کے نام آپریٹر کے پاس رکھوا دیتے۔کسی کو خبر نہ ہوتی کہ یہ جرمانے یا سرزنش کا خط ہے یا کسی دکھ کا مداوی۔
آخری چند برسوں میں مالی مشکلات کے باعث امت کے کارکنوں کے واجبات بھی کروڑوں تک پہنچ گئے، مگر وقت رخصت وہ وصیت میں اس کا ازالہ کر گئے اور ان کے انتقال کے بعد پلاٹ فروخت کر کے واجبات ادا کئے گئے۔
رفیق افغان بطور صحافی یا مدیر پروفیشنلزم کے کس درجے پر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ہسپتال کے بیڈ سے اکھڑتی سانسوں کے ساتھ وائس نوٹ کے ذریعے وہ مجھے ہدایت کر رہے تھے کہ اسلام آباد میں قتل ہونے والی نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر کیخلاف ایسی بھرپور رپورٹس کی پوری سیریز چلائی جائے کہ وہ اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر عبرت ناک انجام سے بچ نہ سکے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے بعد صحافت میں کوئی دوسرا رفیق افغان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔دو دہائیوں سے زائد عرصے تک رفیق افغان جیسی حیران کن صلاحیت کے مالک چیف ایڈیٹر کی سرکردگی میں کام کرنا، میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
رب کریم ان کی لغزشیں معاف اور حسنات قبول فرمائے۔۔ آمین