فوٹو بشکریہ مقامی میڈیا
فوٹو بشکریہ مقامی میڈیا

ماحولیاتی تبدیلیاں ملک میں نئی قیامت ڈھانے کو تیار

ارشاد کھوکھر:

ماحولیاتی تبدیلی ، شدید بارشوں اور سیلاب کی صورت میں ملک بھر میں نئی قیامت ڈھانے کو تیار ہے۔ پنجاب اور کے پی کے کے ساتھ اب سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں اربن فلڈ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ 26 جون سے شروع ہونے والا مون سون کی بارشوں کا سلسلہ ستمبر کے وسط تک بھی جاری رہنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ موجودہ مون سون کے دوران غیر معمولی طور پر ابھی تک بارش کے 7 اسپیل آچکے ہیں۔ مزید دو سے تین اسپیلز آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے باعث اب تک ملک بھر میں 660 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور 935 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ 2 ہزار 478 خاندان گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ بارشوں سے اب تک سب سے زیادہ کے پی کے متاثر ہوا ہے۔

عمومی طور پر ہمارے ملک میں مون سون کے دوران بارش کے پانچ سے چھ اسپیل آتے ہیں۔ جن میں دو، تین اسپیل شدید بارشوں کے ہوتے ہیں لیکن اس مرتبہ غیر معمولی طور پر ابھی تک بارش کے سات اسپیل آچکے ہیں۔ اور مزید دو سے تین اسپیلز آنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی اصل وجہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ جس سے پاکستان شدید متاثر ہورہا ہے۔ لیکن ابھی تک اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا بڑا ذریعہ درخت اگانا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں وہ کچے کا علاقہ ہو یا پکے کا، جنگلات کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جس کو ہم کچے کا علاقہ کہتے ہیں، اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہاں جنگلات ہیں لیکن اب وہ صورت حال نہیں رہی ہے۔ اس کے علاوہ بارشوں کے باعث بڑی تباہی کا سبب پانی کی قدرتی گزر گاہوں پر تجاوزات بھی ہیں۔

تیسرا بارشوں کا جو ساتواں اسپیل چل رہا ہے اس کے 22 اگست تک جاری رہنے کی رہنے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 25 اگست سے 30 اگست تک جو نیا اسپیل آئے گا وہ مزید خطرناک ہوسکتا ہے۔ ان دنوں میں پنجاب میں راولپنڈی ، کوہ مری، جہلم کے ساتھ سندھ کے تقریباً تمام اضلاع میں شدید بارشوں کا امکان ہے۔ جن میں سے خصوصاً جنوبی سندھ کے اضلاع بدین، ٹھٹھہ، ٹنڈومحمد خان، میرپور خاص، تھرپارکر، سجاول میں موسلا دھار بارشوں کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ جبکہ کے پی کے اور گلگت بلتستان کے کئی علاقے بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ساتھ ہی بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں بھی شدید بارشوں کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ جس کے باعث ان دنوں میں چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں اربن فلڈ کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ اب تک کی فور کاسٹ کے مطابق دیگر شہروں کے مقابلے کراچی میں بارش کم ہوسکتی ہے۔ لیکن کراچی کے انفرا اسٹرکچر کا جو حال ہے اس سے کراچی میں بھی اربن فلڈ جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق 26 جون سے شروع مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی صورت حال کے باعث اب تک 660 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جن میں 394 مرد ، 95 خواتین اور 171 بچے بھی شامل ہیں۔ بارشوں کے باعث جاں بحق ہونے والے افراد میں سے سب سے زیادہ کے پی کے میں 392 افراد ، پنجاب میں 164، گلگت بلتستان میں 32، بلوچستان میں 20 اور سندھ میں 29، آزاد جموں کشمیر میں 15، اور اسلام آباد میں 8 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق بارشوں کے باعث 935 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں سے سب سے زیادہ یعنی 582 افراد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ، 245 افراد کا تعلق کے پی کے ، 40 سندھ ، 4 بلوچستان ، 37 گلگت بلتستان ، 24 آزاد جموں کشمیر اور 3 کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ اسی طرح سرکاری رپورٹ کے مطابق 2 ہزار 478 گھر بارش سے متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں سے 780 گھر مکمل طور پر اور ایک ہزار 698 گھر جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ گھر کے پی کے میں متاثر ہونے والے گھروں کی تعداد 712 ہے۔ پنجاب کے 216، سندھ میں 87، بلوچستان میں 82، گلگت بلتستان میں 597، سب سے زیادہ گھر آزاد جموں و کشمیر میں متاثر ہوئے ہیں، جن کی 719 اور اسلام آباد میں 65 گھر متاثر ہوئے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک ہزار تین مویشی بھی بارش اور سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔ جن میں سے پنجاب میں 121، کے پی کے 467، سندھ 138، گلگت بلتستان 67 اور آزاد جموں و کشمیر میں 210 مرگئے ہیں۔ تاہم ریلیف کے کام سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری ریکارڈ پر جو نقصانات ظاہر کئے جارہے ہیں اس کے مقابلے میں اصل نقصانات کہیں زیادہ ہیں۔ کیونکہ سرکاری ریکارڈ پر جو نقصانات ظاہر کئے جاتے ہیں اس کے متعلق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو متعلقہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز سے جو رپورٹس موصول ہوتی ہیں اسی کی بنیاد پر نقصانات کا ریکارڈ بنایا جاتا ہے اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ وغیرہ پر انحصار کرتی ہیں۔

مذکورہ ذرائع کے مطابق بارشوں سے اموات کی جو تعداد ظاہر کی جارہی ہے اس کے مقابلے میں وہ تعداد زیادہ ہے کیونکہ کئی ایسے دور دراز علاقے جہاں لوگ متاثر ہوئے ہیں، وہ ابھی تک رپورٹ ہی نہیں ہوسکے ہیں۔ اور کئی لاپتہ افراد کا جب تک پتہ نہیں لگتا تب تک صحیح اعدادو شمار سامنے نہیں آسکتے۔ تاہم اصل اعداد و شمار اس وقت سامنے آئیں گے جب آفت زدہ قرار دیئے گئے علاقوں کا باضابطہ طور پر سروے کیا جائے گا۔
بارشوں کے باعث ایک بار پھر ملکی دریائوں میں بھی پانی کی سطح بلند ہورہی ہے۔ جس میں خصوصاً دریائے کابل، دریائے جہلم ، دریائے ستلج، اور دریائے چناب شامل ہیں۔ ان دریائوں میں پانی کی مقدار بڑھنے کی باعث دریائے سندھ میں بھی ایک بار پھر سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

دریائے سندھ میں تربیلا ڈیم کے مقام پر پانی کی آمد بڑھ کر تین لاکھ 23 ہزار کیوسک ہوگئی ہے۔ اور گزشتہ روز ڈیم سے تین لاکھ 4600 کیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا۔ دریائے کابل کا پانی دریائے سندھ میں گرنے کے باعث کالا باغ کے مقام پر پانی کی سطح چار لاکھ 71 ہزار 192 کیوسک ، اس طرح دریائے سندھ میں چشمہ بیراج کے مقام پر پانی کی سطح چار لاکھ 90 ہزار 694 کیوسک اور تونسہ بیراج کے مقام پر پانی کی سطح چار لاکھ 77 ہزار 899 کیوسک ہونے کے باعث مذکورہ تینوں بیراجز کے مقام پر درمیانے درجے کے سیلاب کی صورت حال ہے۔ پانی کی مقدار پانچ لاکھ کیوسک سے بڑھ جانے کے بعد وہاں پر اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا جائے گا۔ تونسہ بیراج سے پانی گڈو بیراج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جہاں پر نچلے درجے کا سیلاب ہے لیکن ایک دو روز میں پانی کی مقدار تین لاکھ 50 ہزار کیوسک سے بڑھ جانے کے بعد وہاں پر بھی درمیانے درجے کے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگی۔

اسی طرح سکھر بیراج کے مقام پر بھی آج ایک بار پھر نچلے درجے کے سیلاب کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ مذکورہ صورت حال کے پیش نطر حکومت سندھ نے متعلقہ تمام اضلاع میں الرٹ جاری کردیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت جائزہ اجلاس میں ہونے والی شدید بارشوں کے پیش نظر موثر اقدامات کرنے کے احکامات جاری کئے گئے جس کے لئے تمام بلدیاتی اداروں ، محکمہ صحت ، محکمہ آب پاشی ، ضلعی انتظامیہ اور دیگر اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔