فائل فوٹو
فائل فوٹو

نویں کلاس کے فی مضمون کیلئے 8 ہزار روپے ریٹ مقرر

سید نبیل اختر:

نویں جماعت کے رزلٹ میں بھی مافیا کروڑوں روپے کا دھندا کرنے کے لئے متحرک ہوگئی ہے۔ نویں کلاس کے فی مضمون کے لئے 8 ہزار روپے کا ریٹ مقرر ہوا ہے۔ کراچی میٹرک بورڈ کے تحت مجموعی طور پر دو لاکھ سے زائد طلبہ نے نویں کلاس کا امتحان دیا ہے اور چند روز میں اس کا رزلٹ آنے والا ہے۔ واضح رہے اس سے قبل میٹرک کے نتائج کے لئے مافیا نے ہزاروں طلبہ سے نتائج تبدیلی کے لئے مجموعی طور پر 12 کروڑ روپے پیشگی وصول کئے تھے۔ یعنی ایسے ہزاروں طلبہ کو جو امتحانات میں فیل ہوگئے تھے یا انہیں پرچوں کے برے نمبر آنے کا یقین تھا، انہیں پیسے لے کر امتیازی نمبروں سے پاس کیا جانا تھا۔ ماضی میں یہ پریکٹس عام تھی۔ تاہم موجودہ چیئرمین بورڈ نے اس دھندے میں شریک ہونے سے انکار کردیا اور میرٹ پر رزلٹ بنانے کا حکم دیا اور یوں مافیا کے 12 کروڑ روپے ڈوب گئے اور انہیں یہ بھاری رقم متعلقہ لوگوں کو واپس کرنی پڑی۔

اب جبکہ نویں کلاس کے امتحانات کا چند روز میں رزلٹ آنے والا ہے تو مافیا نے دسویں جماعت کا نقصان ان امتحانات کے رزلٹ سے پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق میٹرک بورڈ کراچی کے زیر تحت نویں جماعت کے دو لاکھ سے زائد طلبہ نے امتحان دیا تھا۔ اس میں سائنس کے ایک لاکھ 82 ہزار، جنرل ریگولر کے 22 ہزار اور ساڑھے تین ہزار کے قریب پرائیویٹ طلبہ شامل ہیں۔ نویں کلاس کے فی مضمون کا نتیجہ تبدیل کرنے کے لئے مافیا نے 8 ہزار روپے کا ریٹ مقرر کیا۔ واضح رہے کہ نویں کلاس میں سات مضامین شامل ہیں۔ ’’امت‘‘ کو حاصل مستند معلومات کے مطابق مافیا نے نویں کے دو لاکھ طلبہ میں سے سات ہزار کے قریب مختلف مضامین میں فیل طلبا و طالبات سے فی مضمون 8 ہزار کے حساب سے جو رقم وصول کی ہے ، وہ تقریباً 39 کروڑ بیس لاکھ روپے بنتے ہیں۔

میٹرک بورڈ کی مافیا نے دسویں جماعت کے رزلٹ سے قبل سیکڑوں ٹی پی کیسز بھگتانے کی کوشش بھی کی تاہم چیئرمین کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے 3 کروڑ روپے کا یہ اضافی دھندا بھی نہیں کیا جاسکا۔ معلوم ہوا ہے کہ ٹی پی میں فی کیس کم از کم 50 ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے تک وصول کیئے گئے تھے ، ٹی پی کیسز ان پیپرز کو کہا جاتا ہے جو نویں اور دسویں کے امتحانات ایک ساتھ دیتے ہیں۔ ماضی میں ان پرچوں کی تعداد 10 ہوتی تھی اسی لیے انہیں ٹین پیپرز ( ٹی پی کیس ) کہا جاتا تھا۔ پرچوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود یہ ٹی پی کے نام سے ہی رجسٹر کیئے جاتے ہیں۔ ان کے پرچے ، ایڈمٹ کارڈز اور نتیجہ تیار بھی اسی نام سے ہوتا ہے۔

بورڈ کے ضابطے کے مطابق ٹی پی کیس کیلئے کسی بھی طالب علم کا پاکستان کے کسی بھی بورڈ میں نویں جماعت میں رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔ ایسے طلبہ کیلئے ٹی پی کی رجسٹریشن اور سابقہ بورڈ سے اجازت کا لیٹر بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن میں نویں اور دسویں جماعت کی رجسٹریشن اور امتحانی فارم کیلئے لازم قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم میٹرک بورڈ کراچی کے شعبہ پرائیوٹ سیکشن نے ٹی پی کیس کو برسوں سے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ آپ کا کسی بھی بورڈ میں کوئی ریکارڈ نہ ہو تب بھی میٹرک بورڈ کے پرائیوٹ سیکشن کے انچارج اور ان کا عملہ آپ کو محض بیس اور تیس ہزار روپے زائد وصول کرکے ایڈمٹ کارڈ جاری کردے گا، یہ اب ایک عام سی بات ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹی پی کیس میں رجسٹریشن اور امتحانی فارم جمع کرانے کی سرکاری فیس لگ بھگ بارہ ہزار روپے سے زائد ہے۔ تاہم ہر طالبعلم سے کوائف پورے کیے بغیر ایڈمٹ کارڈ جاری کرنے کیلئے تیس سے چالیس ہزار وصول کیے جاتے ہیں جس میں سرکاری فیس بھی شامل ہوتی ہے۔ ہر سال ایسے سیکڑوں طلبہ ٹی پی کیس میں بھگتائے جاتے ہیں جنہیں کہیں بھی ملازمت کیلئے میٹرک پاس ہونے کی شرط کا سامنا ہوتا ہے۔

بورڈ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ امتحانات میں ٹی پی کیس کی رجسٹریشن، امتحانی فارم اور اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے نام پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک وصول کیے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹی پی کیس کے طلبہ کی تعداد اگر 400 سے زائد ہو تو ان سے اوسطاً تین کروڑ روپے سے زائد کی رقم وصول کی گئی ہے۔ تاہم بورڈ کے شعبہ امتحانات میں گریڈ 18 کے تمام افسران کی معطلی کے باعث پہلے تو ٹی پی کیسز کلیئر کرانے میں پرائیوٹ سیکشن کے انچارج کو ناکامی کا سامنا ہوا اور پھر سیکڑوں کیسز کوائف نامکمل ہونے کی وجہ سے روک دیئے گئے۔ جن طلبہ نے ایجنٹوں اور بورڈ کے عملے کو ہزاروں روپے رشوت دے رکھی تھی ان کا نتیجہ رک جانے کی وجہ سے ایجنٹ مافیا اور بورڈ کے کرپٹ افسران پریشان ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کے ایک اعلیٰ افسر کے بھائی پرائیوٹ سیکشن کے انچارج ہیں اورگزشتہ ایک دھائی سے پرائیوٹ سیکشن میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موصوف، امتحانات میں ضلع ملیر اور کورنگی میں اپنی ڈیوٹی لگواتے ہیں، جہاں نقل مافیا کے ذریعے امتحانی مراکز سے نقل کرانے کی مد میں یومیہ لاکھوں روپے اینٹھتے ہیں۔ گزشتہ امتحانات میں ایک امتحانی مرکزمیں اچانک درجنوں طالبات کے آجانے کا معاملہ میڈیا میں رپورٹ ہوا جس پر پریکٹیکل سیکشن کے انچارج اور بورڈ سیکریٹریٹ میں تعینات ایک افسر کے معطل کردیا گیا تھا۔ جبکہ حب آفیسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ معاملے کی تحقیقات کے بعد سابق ناظم امتحانات اور انکوائری کمیٹی کے کنوینئر سید محمد علی شائق نے سفارش کی کہ حب آفیسر سے باز پرس کی جائے جس نے امتحانی مرکز کا دورہ کیا اور نہ ہی اپنے فرائض پوری طرح انجام دیئے۔

اس سفارش کے باوجود حب آفیسر فیاض گجر کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ چونکہ ان کے بھائی بورڈ کے سیکریٹری ہیں، اس لیے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ ٹی پی کیسز بھگتانے میں ناکامی پر معاملہ چیئرمین میٹرک بورڈ غلام حسین سوہو کے پاس لایا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ رزلٹ میں ابھی وقت ہے ، یہ کام کرلیا جائے تو اس کی پیشگی رقم کام آسکتی ہے۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ ٹی پی کیسز بھگتانے کے حوالے سے تفصیلی خبر شائع کرچکا تھا۔’’امت‘‘ کے پاس ان تمام ٹی پی کیسز کے نمبر بھی موجود ہیں۔ چیئرمین نے تین کروڑ روپے کی خطیر رقم کی آفر کے باوجود ٹی پی کیس بھگتانے سے انکار کردیا۔

میٹرک بورڈ کے نتائج میں گڑ بڑ کرنے والے افسران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی نہیں ہوتی، اس کی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ کرپشن کے الزام میں افسران کے خلاف اینٹی کرپشن میں تحقیقات شروع ہوتی ہیں۔ تاہم بھاری لفافوں کے عوض یہ انکوائریاں سرد خانے کی نذر کردی جاتی ہیں۔ ’’امت‘‘ کو حال ہی میں یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ سے چیئرمین میٹرک بورڈ کو بھیجے گئے خط کے حوالے سے معلوم ہوا کہ اس خط کے ذریعے بورڈ کے سیکریٹری اور ان کے بھائی اسسٹنٹ کنٹرولر کو مبینہ کرپشن اور ہیرا پھیری کرنے پر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم چیئرمین میٹرک بورڈ اس خط سے لاعلم تھے۔ 19 جون کو لکھے گئے خط میں 14 مئی 2025ء کو وزیر اعلیٰ سندھ کی تحقیقاتی ٹیم (سی ایم آئی ٹی) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سیکریٹری بورڈ ڈاکٹر نوید اور ان کے بھائی اسسٹنٹ کنٹرولر فیاض احمد کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہے، ان کے خلاف فوری طور پر انکوائری شروع کی جائے۔

چیئرمین کو واضح ہدایت کی گئی کہ 14 روز میں انکوائری کی رپورٹ متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو بھیجی جائے، تاہم یہ انکوائری بھی شروع نہیں کی جاسکی اور معاملہ دبادیا گیا۔ سیکریٹری بورڈ ڈاکٹر نوید کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ انہیں 5 ستمبر 2025ء تک قائم مقام سیکریٹری کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔ ان کی بطور سیکریٹری خدمات مکمل ہونے میں تقریباً دو ڈھائی ہفتے باقی ہیں۔ اپنی دوبارہ تعیناتی کے لئے ڈاکٹر نوید نے بااثر شخصیات سے رابطے شروع کرد یے ہیں۔ تاہم انہیں سیکریٹری شپ دلانے کی حتمی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکی ہے۔