
سجاد عباسی
پاکستان میں روایتی میڈیا جب سے الیکٹرانک کے بعد سوشل اور ڈیجیٹل کے رنگ میں ڈھلا ہے،اس کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں۔اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اطلاعات پر اجارہ داری ختم ہو گئی ہے، یعنی سکہ رائج الوقت صرف وہ نہیں جو کوئی "سکہ بند” صحافی یا میڈیا گرو ارشاد فرمائے، بلکہ جو بھی بروقت یا وقت سے پہلے کوئی انفارمیشن باہر لے آئے، وہی”ہیرو” قرار پاتاہے۔۔ مگر اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ایک تو یہ کہ انفارمیشن کے سیلاب میں ہر قسم کا مال بہہ کر آ رہا ہوتا ہے،جسے پکڑنے کے لیے ایک انبوہ کثیر کھڑا ہوتا ہے اور جس کے ہاتھ جو چیز آتی ہے، وہ اسے بریکنگ نیوز قرار دے کر مارکیٹ میں پھینک دیتا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہماری قوم اپنے سوشل میڈیا یا صحافتی ہیروز کے انتخاب کے معاملے میں بہت جذباتی ہو گئی ہے، اور سیاسی و غیر سیاسی، نظریاتی و غیر نظریاتی معاشرتی تقسیم اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن بن جاتا ہے، کیونکہ ہر آدمی یا گروہ اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتا ہے۔ چنانچہ اپنی فکر سے متصادم ہر اطلاع آپ کو جھوٹ لگتی ہے اور آپ نامہ برکو مارنے کے لیے لپکتے ہیں ،ورنہ حسب استطاعت اسے کسی کا ایجنٹ یا ٹاؤٹ وغیرہ تو بڑی سہولت سےقرار دے ہی دیتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ میڈیا سے وابستہ سینئر حضرات کی بڑی تعداد بھی بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شامل ہونے، بلکہ بازی لے جانے کے لئے اتاولی ہوئی جاتی ہے اور اس چکر میں اچھے خاصے جہاندیدہ لوگ عزت سادات گنوا بیٹھتے ہیں۔وہ،یہ پرانا سبق بھول جاتے ہیں کہ صحافی کا کام صرف انفارمیشن کو آگے بڑھانا نہیں ہوتا بلکہ اسے حتی الوسع جھوٹ اور سچ کے پیمانے پر پرکھنے کے بعد "کراس چیک ” کی بھٹی سے بھی گزارنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ گفتگو کے فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔
اب یہ ساری باتیں ظاہر ہے ہم جیسے مبتدی سہیل وڑائچ جیسے منجھے ہوئے تجزیہ کار کو تو نہیں سمجھا سکتے کہ صحافت کا کام خبر اور تجزیے کے ذریعے عوام کو باخبر رکھنا ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے تنازعات میں الجھنا اور پاور بروکر کا کردار ادا کرنا نہیں۔ آپ جب بھی ازخود اس طرح کی کوئی ذمہ داری لے لیتے ہیں تو پھر آپ کے کہے سنے اور لکھے کا بوجھ کوئی اور نہیں اٹھاتا۔چنانچہ ذرا سی چوک ہوئی اور ساکھ کی پگڑی ٹخنوں میں آ گری۔سہیل وڑائچ ایک صاحب مطالعہ ،باخبر ،سنجیدہ اور زیرک صحافی ہیں،خاص طور پر انٹرویو کے ذریعے دھیمے لہجے میں بڑے سوال کر کے غیر محسوس طریقے سے بڑی خبر نکالنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں، مگر "غیر نصابی سرگرمیوں” کے ذریعے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرنے کا شوق بسا اوقات مہنگا پڑ جاتا ہے۔
سہیل وڑائچ نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی تردید کے جواب میں تفصیلی وضاحت پر مبنی ایک اور تحریر لکھ ڈالی ہے، جس میں انہوں نے اپنی گزشتہ تحریروں کے دفاع کے ساتھ ساتھ کسی حد تک”تردید کی تردید” تو کی ہے، مگر مفاہمت کی ذاتی خواہش کا اظہار کر کے ناقدین کو کچھ نئے اعتراضات اٹھانے کا موقع بھی دے دیا ہے۔ سہیل وڑائچ کواس بات کا کریڈٹ تو ضرور دینا چاہیے کہ وہ مشکل بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں، ان کی تحریر دلچسپ، معلومات افزاء اور متوازن بھی ہوتی ہے جس میں دہائیوں کی صحافتی ریاضت کا عکس نظر آتا ہے، پراس بار لگتا ہے کہ وہ تھوڑے جذباتی ہو کر توازن کھو بیٹھے۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگ تلواریں سونت کر اپنا اپنا ادھار چکانے میدان میں نکل آئیں۔اب تو ان کیخلاف ایف آئی اے میں ایک "اسٹیریو ٹائپ” مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔ یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ آج کی صحافت کئی دیکھی اور ان دیکھی مشکلات کا شکار ہے۔اگر سہیل وڑائچ جیسے معاملہ فہم سینئر صحافی نے ہنستے کھیلتے اپنا دامن کانٹوں سے الجھا لیا ہے تو ہما شما کس کھاتے میں ہیں۔
ہمارے سینئر جناب فاروق اقدس جو سہیل وڑائچ والے میڈیا گروپ سے ہی تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے کولیگ سے متعلق تازہ ترین صورت حال پر منیر نیازی کے الفاظ میں منظوم تبصرہ کیا ہے،جو بالکل حسب حال ہے۔
کج انج بھی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
مگر یہ تحریر پوسٹ کرنے سے پہلے ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے منفرد لہجے کےشاعر جناب نسیم عباسی کا ایک شعر نظر سے گزرا جو اس سے بھی زیادہ حسب حال لگتا ہے۔
فارغ کہاں ہوا ہے کوئی امتحان سے
اٹکا کھجور میں جو گرا، آسمان سے
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos