محمد قاسم :
خیبر پختونخواہ میں امداد کی تقسیم کا نظام شفاف نہ ہونے کے باعث متاثرین سیلاب تا حال ریلیف کے منتظر ہیں اور ایک ہی خاندان یا مخصوص گروہ بار بار امداد وصول کرکے دیگر متاثرین کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ جبکہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ اور سیلاب میں بہہ گئیں ۔
دوسری جانب حالیہ قدرتی آفات کے باعث 80 یونین کونسلوں کو آفت ز دہ قرار دینے کی سفارش کر دی گئی جبکہ ضلع بونیر میں لوگوں کا روزگار اور رہائش بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق امداد کی تقسیم کا شفاف نظام نہ ہونے سے متاثرین سیلاب تاحال ریلیف کے منتظر ہیں۔ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی بے لاگ محبت اور ایثار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ عوام مشکل وقت میں متاثرین کیلئے رقوم، خوراک اور دیگراشیا متاثرہ علاقوں میں بھیج رہے ہیں تاہم اس کے برعکس امداد کی تقسیم کا شفاف نظام نہ ہونے سے متاثرین سیلاب تاحال ریلیف کے منتظر ہیں اور اس دوران انہیں متعدد مشکلات درپیش ہیں کیونکہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع کے مختلف دیہات سے ملنے والی شکایات کے مطابق ایک ہی خاندان یا مخصوص گروہ بار بار امداد وصول کر کے دیگر متاثرین کا حق مار رہے ہیں۔
جبکہ وہ لوگ جن کے گھر زمین بوس ہو ئے اور پیارے کھو دئیے ہیں وہ یاتو ملبہ ہٹانے میں لگے ہیں یا اپنے مرحومین کا ماتم کررہے ہیں اور اس دوران امداد ان تک پہنچ ہی نہیں پاتی ہے۔ جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے عوام نے شکوہ کیا ہے کہ حکومتی سطح پر کوئی منظم حکمت عملی یا ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم موجودنہیں جس کے ذریعے یہ تعین ہوسکے کہ کس کو امداد ملی اور کس کو نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امداد کی تقسیم غیرمنصفانہ اور غیر شفاف دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر نقد رقوم براہ راست متاثرین کو دی جائیں تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق سامان خرید سکتے ہیں۔
دوسری جانب امدادی سامان کے انتخاب پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور کئی علاقوں میں ایسے امدادی سامان کی بھرمار ہے جس کی متاثرین کو فوری ضرورت ہی نہیں جبکہ وہ چیزیں جن کی ضرورت ہے جس میں صاف پانی، خیمے، خشک راشن، ادویات اور مچھر دانیاں وغیرہ دستیاب ہی نہیں ہیں اور امدادی سامان بھیجنے والے افراد یا ادارے متاثرین کی حقیقی ضروریات سے آگاہ ہی نہیں۔
اس صورتحال میں عوام کی جانب سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب ملک میں آفات بار بار آتی ہیں تو کیوں ہر مرتبہ ایک ہی طرح کی بدنظمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور متاثرین کو بار بار دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ اور سیلاب میں بہہ گئیں۔ اطلاعات کے مطابق صوبے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے جہاں انسانی جانوں اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا وہیں زرعی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
محکمہ زراعت خیبرپختونخوا نے صوبے میں فصلوں اور باغات کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ جاری کر دی اور اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے صوبے کے 16 اضلاع متاثر ہوئے اور ان سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ رقبے پر کھری فصلیں اور باغات تباہ ہو گئے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان ضلع بونیرمیں ہوا جہاں 26 ہزار141ایکڑ زمین پر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ جبکہ اس علاقے میں جانی نقصان بھی سب سے زیادہ ہوا ہے۔
اسی طرح ضلع سوات میں3 ہزار 750 ایکڑاور دیر لوئر میں617 ایکڑزرعی رقبہ متاثر ہوا جبکہ شانگلہ میں 52 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں ۔ محکمہ زراعت کے مطابق متاثرہ اضلاع میں سب سے زیادہ مکئی کی فصل کو نقصان پہنچاجبکہ چاول، سبزیاں اور باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ۔ دوسری جانب حالیہ قدرتی آفات کے باعث 80 یونین کونسلوں کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کر دی گئی ۔
ضلع بونیرکے مختلف دیہات میں لوگوں کا روزگار اور رہائش بری طرح متاثر ہوئی جبکہ ان اضلاع کی فوری مدد ہنگامی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔ ذرائع کے مطابق حالیہ بارشوں اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کیلئے جاری سروے میں ابتدائی طور پر صوبے کے مختلف اضلاع کی80 یونین کونسلز کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے اور سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیرکے مختلف دیہات میں لوگوں کا روزگار اور رہائش بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ سوات، باجوڑ، شانگلہ اور دیر لوئر کے متعدد علاقے بھی فہرست میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے سفارشات تیار کر لی گئی ہیں اور صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد ان علاقوں کو باضابطہ طور پر آفت زدہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کا روزگار بری طرح متاثر ہوا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔
جبکہ صوبے میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں اموات کی تعداد 406 ہو گئی جبکہ 247 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی جانب سے صوبے کے مختلف اضلاع میں جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ جاری کر دی گئی جس کے مطابق جاں بحق افراد میں 305 مرد، 55 خواتین اور 46 بچے شامل ہیں۔ اسی طرح بارش اور سیلاب کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں میں179 مرد، 38 خواتین اور 30 بچے شامل ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos